کریمہ بلوچ مبینہ قتل: کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ

512

کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں مبینہ قتل کیخلاف بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں آج بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی اور مظاہرہ کیا گیا۔ جس میں سیاسی جماعتوں، طلبا تنظیموں، وکلا برادری اور مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

احتجاجی مظاہرے میں مقررین نے بانک کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بانک کریمہ ایک کرشماتی رہنماء اور پائے کے سیاسی کارکن تھی، انہوں نے بلوچ قومی سیاست کی ایک ایسے وقت میں رہنمائی کی جب بلوچ سیاسی عمل جمود کا شکار تھی، بلوچ طالبعلموں کو مایوسی گھیر چکی تھی، ریاست کی جانب سے مارو اور پھینکو کی پالیسی میں تیزی لائی جاچکی تھی، سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی تھیں اور تنظیمی کارکنان کو معمول کے مطابق جبری پر لاپتہ کیا جا رہا تھا۔

مظاہرین نے کہا کہ جب پورے بلوچستان میں خوف کی فضا قائم تھی اس وقت بانک کریمہ اپنی موقف پر ڈٹی رہی اور بلوچ قومی سیاست کو جلا بخشی، کریمہ بلوچ کی ہمت و استقلال کے بدولت بلوچ طلباء سیاست نے ایک الگ اور واضح سمت اختیار کی ہے۔ بانک کریمہ جہد مسلسل کی علامت تھی اور انہیں اُن کی لازوال قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

مقررین نے بانک کریمہ بلوچ کی پر اسرار قتل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بانک کریمہ کی موت کوئی سانحہ نہیں بلکہ ریاستی مارو اور پھینکو پالیسی کا تسلسل ہے۔ کریمہ بلوچ کا بیرون ملک قتل جلاوطن سیاسی کارکنان پر حملے کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اِس سے پہلے ساجد بلوچ کو سویڈن ہی میں لاپتہ کر کے شہید کیا گیا۔ بیرون ملک بلوچ سیاسی کارکنان کو خاموش کرنے کے لیے دھونس دھمکیوں سے کام لینا اور انہیں قتل کرکے ویرانے میں اُن کی لاشیں پھینکنا عالمی اداروں اور مہذب ممالک کے ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مقررین نے کہا کہ بیرون ملک رہائش پذیر بلوچ سیاسی کارکنان پر انسان حقوق کے اداروں سمیت تمام ممالک کی خاموشی اُن کی متعصبانہ رویے کی عکاس ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کا خاموشی کا لبادہ اوڑھنا ریاستی پنجوں کو مزید مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی سرزمین کو اس سے پہلے بلوچ قوم کے لیے تنگ کیا جا چکا ہے۔ بلوچستان میں آئے روز آپریشن کیے جا رہے ہیں، گھروں کو جلایا جارہا ہے، سیاسی کارکنان کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے نیز تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسی فضا سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنا نہایت ہی دشوار ہے اور یہیں وجہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنان بیرون ملک پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ ریاست کی ظلم و بربریت جو کہ اِس سے پہلے صرف بلوچستان تک محدود تھی اب بیرون ملک تک پہنچ گئی ہیں، ان خونی پنجوں کا محور اب بیرون ممالک بلوچ پناہ گزین ہیں جنہیں خود کی سرزمین سے مجبوراً بے دخل ہونا پڑا ہے۔

مقررین نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ کا قاتل وہی ادارے ہیں جن کو بلوچ سے زیادہ بلوچوں کی سرزمین عزیز ہے اور اِس کے لیے وہ بلوچ نسل کشی سے بھی نہیں کترا رہی ہے۔