چیئرمین بی ایس او آزاد درپشان بلوچ کا دی بلوچستان پوسٹ کے ساتھ خصوصی انٹرویو

1775

چیئرمین بی ایس او آزاد درپشان بلوچ کا دی بلوچستان پوسٹ کے ساتھ خصوصی انٹرویو

۱۹ اپریل ۲۰۲۳ کو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، اپنا تئیسواں قومی کونسل سیشن کامیابی سے منعقد کرتا ہے، اور کونسل سیشنل کے اختتام پر اعلان کیا جاتا ہے کہ درپشان بلوچ بی ایس او آزاد کے نئے چیئرمین جبکہ زروان بلوچ نئے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے ہیں۔

یہ اس تاریخی تسلسل کا حصہ ہے، جس کی ابتدا فروری 2002 کو بی ایس او (محراب) کی کونسل سیشن منعقد ہونے کے وقت سے ہوا، جس کا بی ایس او کے سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ اپنے ساتھیوں سمیت بائیکاٹ کردیتا ہے۔ جس کی وجہ اس وقت کے بی ایس او کے چیئرمین نادر قدوس کا پاکستانی پارلیمانی جماعتوں سے قربت، بی ایس او کی حقیقی روح سے روگردانی بتاتے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نظر آزادی، غیر پارلیمانی سیاست اور بی ایس او کی آزاد حیثیت کا نظریہ رکھتے ہوئے، الگ کونسل سیشن منعقد کرکے بی ایس او آزاد کی بنیاد رکھتے ہیں اور تنظیم کے پہلے چیئرمین منتخب ہوتے ہیں۔

اس وقت بی ایس او آزاد اور محراب کے علاوہ بی ایس او کے مزید دو دھڑے موجود ہوتے ہیں۔ بی ایس او (مینگل) جو بی این پی (مینگل) سے، اور بی ایس او (استار) جو بی این پی (عوامی) سے قربت رکھتے تھے۔ بی ایس او (استار) اپنے چیئرمین حمید شاہین کی سربراہی میں بی ایس او آزاد کے ساتھ انضمام کا اعلان کردیتا ہے۔ جس کے بعد بی ایس او آزاد اپنا نام بدل کر بی ایس او (متحدہ) رکھ دیتا ہے۔ بی ایس او (متحدہ) کا کونسل سیشن پنجگور میں منعقد کیا جاتا ہے، جہاں چیئرمین ڈاکٹر امداد بلوچ اور جنرل سیکریٹری سعید یوسف بلوچ منتخب ہوتے ہیں۔

بی ایس او آزاد اور استار کے انضمام کے بعد ایک بار پھر بی ایس او کے باقی دھڑوں کے ساتھ گفت وشنید شروع ہوتی ہے اور تمام دھڑیں انضمام کرکے “سنگل” بی ایس او پر اتفاق کرتے ہیں۔ جو انتہائی قلیل عرصے تک قائم رہتا ہے، پہلے کونسل سیشن سے قبل ہی واحد رحیم بلوچ الگ دھڑا بی ایس او پجار کے نام سے قائم کردیتا ہے۔

2006 کو باقاعدہ طور پر کوئٹہ میں بی ایس او کا کونسل سیشن منعقد ہوتا ہے، جہاں بشیرزیب بلوچ چیئرمین، سنگت ثناء بلوچ وائس چیئرمین اور گلزار بلوچ سیکریٹری جنرل منتخب ہوتے ہیں۔ کونسل سیشن کے دوران اختلافات پر محی الدین بلوچ اپنا الگ دھڑا قائم کرتے ہیں۔ اسکے بعد سنگل بی ایس او اپنا پرانا نام بی ایس او آزاد دوبارہ اختیار کرلیتا ہے۔

سنہ 2008 کو بی ایس او آزاد کے اگلے کونسل سیشن میں بشیر زیب بلوچ دوسری بار تنظیم کے چیئرمین جبکہ زاہد بلوچ سیکریٹری جنرل منتخب ہوتے ہیں۔ اگلے کونسل سیشن کیلئے بی ایس او آزاد کو سخت حالات کی وجہ چار سال کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ 2012 کو منعقدہ انیسویں کونسل سیشن میں زاہد بلوچ چیئرمین، کریمہ بلوچ سینئر وائس چیئرمین جبکہ رضا جہانگیر سیکریٹری جنرل چنے جاتے ہیں لیکن بی ایس او آزاد کے مطابق 14 مارچ 2014 کو انکے چیئرمین زاہد بلوچ کو خفیہ اداروں کے اہلکار گرفتار کرکے لاپتہ کردیتے ہیں، جو تاحال منظر عام پر نہیں آسکے ہیں، اس سے قبل تنظیم کے سیکریٹری جنرل رضا جہانگیر کو بھی تربت میں فورسز ایک چھاپے کے دوران فائرنگ کرکے قتل کردیتے ہیں۔

2015 کو بی ایس او کا بیسواں کونسل سیشن منعقد کیا جاتا ہے، جس میں چئیرپرسن کریمہ بلوچ اور سیکریٹری جنرل ثناء اللہ عرف عزت بلوچ منتخب ہوتے ہیں۔ کریمہ بلوچ کو بی ایس او کی تاریخ میں پہلی خاتون سربراہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
بی ایس او آزاد اپنا اکیسواں کونسل سیشن 2018 کو منعقد کرتا ہے، جہاں سہراب بلوچ تنظیم کے چیئرمین منتخب ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ اس سال تک جاری رہا، جب 3 نومبر 2020 کو بی ایس او آزاد یہ اعلان کرتا ہے کہ “بی ایس او آزاد کا بائیسواں قومی کونسل سیشن بنام معلم آزادی شہید صبا دشتیاری و بیاد درسگاہ آزادی خیر بخش مری آج کونسل سیشن کے تیسرے دن کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ جس میں ابرم بلوچ بلامقابلہ چیئرمین جبکہ مہر زاد بلوچ بلا مقابلہ سیکریٹری جنرل منتخب ہوئی ہیں۔”

درپشان بلوچ، اپنے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا اصل نام میڈیا میں ظاہر نہیں کرتے۔ دی بلوچستان پوسٹ نے مختلف ذرائع سے مسلسل کوششوں کے بعد ان سے رابطہ کرکے نامعلوم مقام پر ملاقات کی، اور ان سے یہ انٹرویو کیا جو قارئین کیلئے پیش کی جارہی ہے۔

ٹی بی پی: آپ نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا کب کی اور ابتک کن سیاسی نشیب و فراز سے گذر چکے ہیں؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: غلامی اپنے آپ میں ایک لعنت ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا موجودہ نسل خوش نصیب ہے جو ایک ایسے عہد میں جی رہی ہے، جب بلوچ قبضہ گیر کے خلاف اپنی فیصلہ کن لڑائی لڑ رہی ہے۔ جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہاں میرے بچپن سے ہی انقلابی سرگرمیاں رونماء ہوتی رہی ہیں اور ہوش سنبھالتے ہی ہم نے مسخ شدہ لاشیں، آپریشن، قبضہ گیر کا تشدد اپنے آنکھوں سے مشاھدہ کیا، جبکہ اس کے مقابلے بلوچ نوجوانوں کے اس جذبے کا بھی مشاہدہ کیا جہاں انہوں اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بلوچ عوام کو یہ باور کرایا کہ ہم بطور قوم کس طرح پنجابی قبضے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ویسے میں اپنے اسکول کے زمانے سے ہی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ رہا ہوں اور علاقے میں جلسے و جلوس، احتجاج اور دیگر سیاسی و انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے میرے اندر قبضہ گیر اور غلامی کی بنیادی فرق واضح ہو چکی تھی۔

 یہ غالبا وہ وقت تھا، جب میں نے آٹھویں جماعت پاس کی تھی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے کراچی گیا تھا۔ کراچی چونکہ بلوچ سیاست و ادب کا ہمیشہ مرکز رہا ہے اور وہاں سیاسی سرگرمیاں ہمیشہ سے جاری رہی ہیں تومیرے بھی کچھ شناسہ دوست ادہر ہی تھے، جو بی ایس او آزاد کے ممبرز تھے۔ میں نے بھی کراچی پہنچ کر 2010 کے شروعاتی دنوں میں بی ایس او آزاد میں باقاعدگی سے ممبرشپ لی اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

ممبرشپ کے بعد میں نے پہلے بطور ڈپٹی یونٹ سیکرٹری اور بعدازاں بطور یونٹ سیکرٹری اپنے فرائض انجام دیئے اور پھر تقریبا چار سالوں تک کراچی زون کے ماتحت اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ یہ چار سال میری بنیادی سیاسی کیرئیر کیلئے کافی اہم رہے، چونکہ یہ دور بی ایس او آزادکیلئے بطور تنظیم نہایت ہی سخت رہا اور تنظیم و ممبران کو اس دوران جہاں عظیم نقصانات کا سامنا رہا، وہیں تنظیم کے ساتھ کھڑےممبران کو کافی تجربات بھی حاصل ہوئیں۔ اس دوران تنظیم نے احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے سیل سسٹم کا قیام عمل میں لایا، بطورایک سیاسی کیڈر اس تمام دورانیہ میں تمام تنظیمی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا اور تنظیم کی جانب سے تفویض اپنے زمہ داریوں کو سرانجام دیتا رہا۔ 2013 کے آخری دنوں میں، میں کراچی سے اپنے علاقے منتقل ہوا، جہاں علاقائی زون کے ساتھ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا، پہلے زونل وائس پریذیڈنٹ اور پھر جلد ہی زونل پریذیڈنٹ منتخب ہوا۔

 2015 کے مرکزی کونسل سیشن تک مختلف زونل عہدوں پر فائض رہا اور بعدازاں سینٹرل کمیٹی ممبر منتخب ہوا۔ اس دوران مختلف مرکزی عہدوں پر زمہ داریاں سنبھالیں اور ایک سیاسی جہدکار کی حیثیت سے اپنے جہد کو جاری رکھا اور تنظیم کے تئیسویں مرکزی کونسل سیشن میں بطورمرکزی چیئرمین منتخب ہوا۔

ٹی بی پی: بطور بی ایس او آزاد کے نو منتخب چیئرمین، آپ تنظیم کو کن نئی خطوط پر استوار کرنا چاہیں گے؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: گوکہ حالات اس کی اجازت نہیں دیتے کہ تنظیم کے طرز عمل اور پروگرام میڈیا میں آشکار کیے جائیں، البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہم بطور تنظیم اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ نوجوانوں کو روایاتی سیاسی عمل سے نکال کر انقلابی نظریات کے ساتھ انہیں اس قابل بھی بنائیں کہ وہ آگے جاکر تحریک کے مختلف جہتوں کو منظم بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ تنظیم سے جڑے سیاسی کارکنان ذہنی طور پر تیار ہونے کے ساتھ صلاحیت اور ہنر کی بنیاد پر بھی تیار ہوں تاکہ وہ آگے جاکر تحریک کے مختلف فرنٹ میں روایاتی سوچ کے بدلے علم و صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنا متحرک کردار ادا کر سکیں۔ کیونکہ موجودہ حالات میں طاقت اور صلاحیتیں آپکی جیت اور ہار کا فیصلہ کرتی ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ تنظیم کے جہد مسلسل میں کسی بھی صورت کمی آنے نہ پائے اور وقتافوقتا بدلتے حالات کے ساتھ تنظیمی پروگرام و پالیسیوں میں ضروری تبدیلیاں لائی جائیں۔

ٹی بی پی: مارچ 2013 سے بی ایس او آزاد کالعدم قرار دیا جاچکا ہے، جس کی وجہ سے تنظیم کریک ڈاون کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں جمہوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے، کونسل سیشن منعقد کرنے میں، کن مصائب کا سامنا تھا؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: میں سمجھتا ہوں کہ تنظیم 2013 نہیں بلکہ اپنی بنیاد سے ہی ریاستی جبر، کریک ڈاؤن اور وحشت کا سامنا کر رہی ہے۔ 2013 سے پہلےبھی تنظیم کے قائدین و ممبران کی جبری گمشدگی اور ان کی مسخ شدہ لاشیں دریافت ہوئی ہیں۔ لیکن بطور ادارہ ہم سمجھتے ہیں کہ حالات چاہے کسی بھی نوعیت کے ہوں لیکن تنظیمی کونسل سیشن جمہوری اور سیاسی اخلاقیات کی بنیاد پر ہر حالت میں منعقدکرنا چاہیئے کیونکہ یہ کونسل سیشن ہی ہے جو تنظیم کیلئے نئی قیادت کا چناؤ کرتی ہے، تحریک کو کیڈرز فراہم کرتی ہے، نئے کیڈرزکیلئے راہیں ہموار کرتی ہے، بدلتے حالات کے ساتھ نئے پروگرام، سوچ اور حکمت عملیاں تشکیل دیتی ہے اور تحریک کے تسلسل کوبرقرار رکھتی ہے۔ کونسل سیشن جیسے اہم اور بنیادی پروگرام میں تاخیر اور اس کے انعقاد میں کوتاہی کا مظاہرہ تنظیمی سرگرمیوں کو جمود کا شکار بنانے کے مترادف ہے، اس لیے میری اپنے رائے میں اس کو ہر صورت وقت پر منعقد کرنا چاہیئے، یہی جمہوریت کاحسن اور تنظیم و تحریک کے حق میں بہترین فیصلہ ہے۔ باقی اگر ریاستی جبر کی بات ہے تو تحریک آزادی میں شامل کسی بھی جماعت اور تنظیم کیلئے حالات کبھی بھی سازگار نہیں ہونگے اور بی ایس او آزاد کیلئے گزشتہ بیس سالوں سے حالات اسی طرح موجود ہیں۔

باقی اگر حالیہ کونسل میں درپیش چیلنجز کی بات کی جائے تو یہ ہمیشہ کی طرح انتہائی سخت، دشوار اور مشکلات سے گزر کربہترین تنظیمی حکمت عملیوں کی وجہ سے کامیاب ہوئی ہے۔ گزشتہ تین چار کونسل سیشنز جن کا میں باقاعدہ طور پر حصہ رہا ہوں اگر ان کی بات کی جائے تو ہمارے دوستوں نے اپنی زندگی اور موت کا سودا لگاکر اس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ نہ صرف کونسل سیشن بلکہ ہمارے کیڈرز ہر دن ہر لمحہ تحریکی اور تنظیمی سرگرمیوں کو انجام دیتے وقت مشکلات سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ایک انقلابی کیڈر عام حالات میں بھی سخت چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور ایسے پروگرام منعقد کرنے کیلئے پھر اسے کن مرحلوں سے گزرنا پڑتاہے اس کا اندازہ تحریک سے جڑے افراد بخوبی لگا سکتے ہیں۔ البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بہترین تنظیمی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کے بغیر یہ قطعی ممکن نہیں کہ ایسے بڑے پروگرام منعقد ہو سکیں۔

ٹی بی پی: بی ایس او آزاد کھلم کھلا نا سیاست کرسکتی ہے اور نا ہی اسے نئے کارکنان چننے میں آسانی ہے، ایسے حالات میں کیا بی ایس او آزاد کے پاس اتنی افرادی قوت ہے کہ وہ قابل کیڈر پیدا کرکے نئی لیڈرشپ کی ذمہ داریاں انہیں سونپ سکے؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: اگر بات سرفیس سیاست کی ہے تو میں دنیا کی انقلابی تاریخ اور آزادی کی جدوجہد میں ایسے تحریکوں سے لاعلم ہوں، جنہیں قبضہ گیر نے سرفیس سیاست اور اپنے آزاد ریاست بنانے کی جدوجہد میں آزادانہ طور پر سیاست کرنے کی اجازت دی ہے، برطانیہ جیسی نام نہاد انسانی اور قومی حقوق کے چیمپئن ریاستیں بھی اپنے ہاں آزادی کی جدوجہد برداشت نہیں کرتے تو پاکستان جیسے جابراور غیر فطری ریاستیں اس عمل کو کیسے برداشت کر سکتی ہیں، جبکہ موجودہ حالات میں آزادی پسند کوئی بھی بلوچ تنظیم سرفیس میں بیٹھ کر کام نہیں کر رہی ہے لیکن تحریک میں شدت روز بروز دیکھنے کو مل رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی، اداروں پر انحصار بڑھانا، تحریک کو مختلف جہتوں میں منظم کرنا اور تحریک کو ان استوار میں ڈالنا جہاں سے تنظیم اورتحریک ایک فرد، ادارہ یا مخصوص اور جامد سوچ کا تابع نہ ہو بلکہ ہر دوسرے قدم پر تنظیم مختلف شکل اور جہتوں میں کام کر رہاہو، جہاں مختلف آئیڈیاز اور انقلابی خیالات وجود رکھتے ہوں، ایسے میں افرادی قوت نہیں بلکہ وہ مضبوطی ادارتی سوچ کامیابی سے ہمکنار کراتا ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق تحریک افرادی قوت سے نہیں بلکہ انقلابی قوت سے کامیاب ہوتے ہیں۔

گوکہ سرفیس سیاست کا جو معنی آپ نکال رہے ہیں ہم اس پر پورا نہیں اتر رہے، لیکن نوجوانوں کی فکری اور عملی سرگرمیوں کےحوالے سے تنظیم ہر جگہ اور ہر طرح موجود اور اپنی زمہ داریوں کو سرانجام دے رہی ہے۔ تنظیم آج سے نہیں بلکہ 2012 سے اپنی قیادت کو سرفیس میں پبلک نہیں کر رہی لیکن ان 11 سالوں کی جدوجہد میں کمزوری اور کوتاہیوں کی باوجود کوئی بھی تنظیمی سرگرمی مکمل طور پر جمود کا شکار نہیں ہوئی ہے۔

باقی اگر ممبرسازی کی بات ہے تو اس کیلئے میرے خیال میں سرفیس سیاست سے زیادہ گراؤنڈ پر آپ کی موجودگی اور عمل معنی رکھتی ہے، بی ایس او آزاد بطور تنظیم اپنے عمل اور کردار کی وجہ سے ہر باشعور بلوچ نوجوان کے شعور کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسےمیں تنظیم کو ممبرسازی کرنے میں کسی بھی طرح کی دشواری کا سامنا نہیں ہے بلکہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہر دوسرا باشعوربلوچ نوجوان بی ایس او آزاد سے منسلک رہنے کی خواہش رکھتا ہے۔

دوسری طرف اگر کیڈرز پیدا کرنے کا معاملہ ہے تو اس کی مثال میں حالیہ کونسل سیشن سے دونگا جہاں کونسلران منتخب کرنے کے وقت تنظیم کے ہر زون سے کونسلران کی دو تین کھیپ تیار تھے، جبکہ یہی معاملہ سینٹرل کمیٹی کے ممبران کے منتخب ہونے کا بھی تھا جس کا ادراک کرتے ہوئے 70 فیصد قیادت کی زمہ داریاں نئےدوستوں کو سونپ دی گئیں، جس کا مطلب ہے کہ تنظیم ایک ایسی کیڈر پیدا کر رہی ہے جو نا صرف قابل ہے بلکہ تنظیم کو مزید منظم و متحرک رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ٹی بی پی: اس وقت بلوچستان میں متعدد بلوچ طلباء تنظیمیں جن میں بی ایس او کے کم از کم پانچ دھڑے متحرک ہیں، بی ایس او آزاد باقی بلوچ طلباء تنظیموں سے کیسے مختلف ہے؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: میں سمجھتا ہوں کہ بی ایس او ایک ہی ہے اور وہ بی ایس او آزاد کی شکل میں منظم و متحرک اور قومی و فکری اور بنیادی نظریہ کے مطابق جدوجہد میں مصروف عمل ہے، باقی آپ جن دھڑوں کا ذکر کر رہے ہیں یہ کسی پارٹی کے پاکٹ آرگنائزیشن یا شخصی ونمائشی دھڑے ہو سکتے ہیں، لیکن بطور تنظیم ان کی کوئی حیثیت و مقام نہیں اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ گزشتہ بیس سالوں سے مسلسل جبر و وحشت اور قتل و غارت کے باوجود بی ایس او آزاد آج بھی بلوچستان کی منظم ترین سیاسی قوت اور نوجوانوں کی آئیڈیل تنظیم ہے، جبکہ قوم اور تحریک کو قیادت اور کیڈر دینے کے معاملے میں حقیقی طور پر وجود رکھتی ہے، جبکہ دوسری جانب نمائشی و پارٹی پاکٹ کسی نظریے و فکر کے بغیر لفاظی و پارٹی ممبرسازی کیلئے کام کر رہے ہیں، جو شاید بی ایس او کا نام استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس نظریے، فکر و فلسفے اور عمل سے ان کا کوئی تعلق نہیں جو بی ایس او کا ہے، یعنی قومی و انقلابی فکر و نظریہ جو بی ایس او کا بنیاد ہے۔ آج بی ایس او آزاد ہر جگہ و ہر مقام پر تحریک سے لیکر سماجی تبدیلیوں سے علم و ادبی سرگرمیوں تک ایک منظم ادارے کی شکل میں قوم اور نوجوانوں کے درمیان وجود رکھتی ہے، جبکہ آپ جن دھڑوں کا ذکر کر رہے ہیں یہ سرفیس سیاست میں ہونے کے باوجود آج بھی 10 نظریاتی طلباء بھی جمع کرنے میں ناکام ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام اور نوجوان کس کو حقیقی بی ایس او یعنی طلباءکی حقیقی قوت تصور کرتے ہیں، جبکہ ان کا ظہور پذیر ہونا کسی فکر و فلسفے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان نام نہاد پارلیمانی پارٹیوں کی خواہش سے ہوا ہے جن کے ہاتھ خود بلوچ تحریک و قوم کو نقصان پہنچانے میں شامل ہیں، تو ایسے دھڑے تحریک و قوم اور بی ایس اوکے نظریے کا وارث کیسے ہو سکتے ہیں؟

 جبکہ ان سب کے علاوہ بی ایس او آزاد کے سینکڑوں کیڈرز نے شہادت دی ہے، سینکڑوں زندان میں قید ہیں، جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں آج تحریک اور سماج کے مختلف جہتوں میں کام کر رہے ہیں، آپ جن دھڑوں کا ذکر کررہے ہیں انہوں نے قوم، تحریک اور سماج کیلئے کیا پیدا کیا ہے؟ میرے خیال میں یہ دھڑے بی ایس او کا نام استعمال کرکے کسی شخص یا گروہ کے مفادات کی تکمیل کر سکتے ہیں لیکن بی ایس او و قومی، فکری و انقلابی نظریہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں، البتہ میری زاتی رائے میں ہمارے کچھ ایسے دوست جو زمینی حقائق سے لاتعلق ہیں ان کو اہمیت دیتے ہونگے، البتہ زمین اور گراؤنڈ پر موجود طلباء و نوجوانوں کیلئے ان دھڑوں کی کوئی بھی اہمیت نہیں، کیونکہ وہ ان کی حقیقت سے واقف ہیں۔ ان جیسے نمائشی و مفاداتی گروہوں کا بی ایس او آزاد یعنی بی ایس او سے موازانہ کرنا میں زاتی طور پر کم علمی یا نادانی تصور کرتا ہوں۔

ٹی بی پی: لیکن بی ایس اوکے حوالے سے ایسا کوئی لٹریچر بھی موجود نہیں ہے کہ ہم ان جیسے متضاد چیزوں کا اندازہ لگا سکیں؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: اگر مزاحمتی ادب یا لٹریچر کی بات کی جائے تو میرے خیال سے صرف بی ایس او آزاد ہی نہیں بلکہ پوری تحریک اس فیلڈ میں کمزوریوں کا شکار ہے، لیکن اس پر گلہ و شکوہ نہیں کیا جا سکتا، بلکہ انکے برعکس بھرپور کام کرنے کی ضرورت ہے۔  ہم بطور ادارے اس کمزوری کو محسوس کرتے ہیں اور تنظیم لٹریچر کمیٹی پر سب سےزیادہ توجہ دے رہی ہے۔ سگار کمیٹی گزشتہ دو سالوں سے لٹریچر پیدا کرنے کیلئے انتھک کوششیں کر رہی ہے اور بی ایس او کےحوالے سے بھی تنظیم کی لٹریچر کمیٹی گزشتہ دو سالوں سے کام کر رہی ہے۔ اس ضمن میں تنظیم بی ایس او کے حوالے سے ایک مستند اور جامع لٹریچر پر کام کر رہی ہے اور امید کرتے ہیں جلد از جلد قوم اور نوجوانوں کو بی ایس او کے حوالے سے ایک جامع تاریخ مہیا کر سکیں۔ البتہ کچھ گروہ اپنے مفادات کیلئے بی ایس او کا نام استعمال کر سکتے ہیں لیکن جو نظریاتی تسلسل بی ایس او کا ہے وہ بی ایس او آزاد کی شکل میں بغیر کسی ابہام کے موجود ہے۔

ٹی بی پی: آزادی کے مطالبے کے سوا آپکے پاس کیا کوئی پروگرام ہے جو طلباء کو اپنی جانب متوجہ کرسکے؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: بی ایس او آزاد کے پاس انتھک پروگرام موجود ہیں جس کی سب سے بڑی مثال بلوچستان میں سرداری سوچ کے خاتمے میں بی ایس او آزاد کا کردار، خواتین کے حوالے سے موجود صنفی تفریقی سوچ کو تحریک اور سماج کے اندر سے ختم کرنے میں حاصل ہونے والی کامیابیاں اور خواتین کو نہ صرف سیاسی محاذ پر ایکٹیو کرنا بلکہ انہیں اس رہبری اور لیڈنگ مقام تک لے آنا اور ہر سطح پر بلوچ خواتین کو منظم و متحرک شکل میں تحریک اور سماج کے اندر سامنے لانا، بلوچ سماج اور خاص کر طلباء کے درمیان نشےکے خاتمے کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کا سہرا میں بی ایس او آزاد کو سر سجاونگا جن کے کیڈرز کی بدولت تعلیمی اداروں اور بلوچ نوجوانوں کے اندر نشے کو ایک حد تک روکنے میں کامیابی ملی ہے، جبکہ بلوچ نوجوانوں کو ریاستی مشینری اور کولونیل ایجوکیشن کےبدلے ایک معیاری اور علمی و سائنسی تعلیم کی جانب راغب کرنا خاص طور پر طلباء اور نوجوانوں کے اندر کتاب کلچر کو فروغ دینا، جومیں سمجھتا ہوں کہ بی ایس او آزاد کی کامیابی ہے جبکہ انقلابی اور تنقیدی لٹریچر پیدا کرنے کا عمل ایسے انگت پالیسی اورپروگرامز ہیں جس کے تحت بی ایس او آزاد نے سماج کے اندر مثبت تبدیلیاں لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی مختلف شکلوں  میں یہ کام تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سماج کے اندر دیگر کالونیل اور سماجی برائیوں کو آشکار کرنے اور ان کا سدباب نکالنے کیلئے بی ایس او آزاد کے پاس ہمیشہ بہترین پروگرام موجود رہے ہیں اور آج بھی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آزادی بنیادی نقطہ ہے آج بلوچ سماج کے اندر جو بھی بیماریاں موجود ہیں وہ غلامی کی وجہ سے ہیں، ایک ویلفئیراور آزاد ریاست کی تشکیل کے ساتھ ہی ہم ان دیگر سیکینڈری بیماریوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ جب تک بلوچ بطور قوم ایک آزادریاست کا مالک نہیں ہوگا یہ سماجی برائیاں کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ پیدا ہوتی رہیں گی، اس لیے یہ اہم ہے کہ ہم سب سےپہلے اس بنیادی مسئلے کا حل نکالیں، جس کی وجہ سے دیگر بیماریاں موجود ہیں۔

آپ ایک طرف کینسر کی بیماری میں مبتلا ہیں تو دوسری جانب ملیریا یا بخار کا شکار ہیں گوکہ آپ ان بیماریوں سے نجات چاہتے ہیں لیکن اہم علاج کینسر کا ہے کیونکہ وہ جان لیوا ہے، جب کینسر کا علاج ہو جائے، آپ زندہ رہ جائیں تو ان دوسرے بیماریوں کا علاج ممکن ہے کیونکہ یہ نقصاندہ ضرور ہو سکتے ہیں، لیکن غلامی جیسے جان لیوا نہیں۔

بی ایس او آزاد یہ سمجھتی ہے کہ بلوچ سماج میں موجود تمام بیماریوں کا بنیاد پاکستانی ناجائز قبضہ ہے، یہ پاکستانی ریاست ہے جس نے بلوچ عوام پر نام نہاد سردار مسلط کیے ہیں، یہ ریاست ہی ہے جس نے ڈیتھ اسکواڈ، ڈرگ ڈیلر، قبضہ مافیا، جاگیردار پال رکھے ہیں، جو بلوچ عوام کے خلاف بربریت کے انتہا کر رہے ہیں۔ یہ قبضہ گیر ریاست ہے جس نے بلوچستان کو تعلیم، زبان اور کلچر سے محروم رکھا ہے، یہ قبضہ گیر ہے جو ایک سیکولر بلوچ سماج کو مذہبی شدت پسندی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ یہ قبضہ گیر کی وجہ ہے کہ آج ہمارے معدنیاتی وسائل کی لوٹ مار جاری ہے، ہمارے وسائل لوٹے جا رہے ہیں جبکہ اس کے بدلے ہمیں مسخ شدہ لاشیں اور ہر دوسرے گھر سے گمشدگی کا متاثرہ ملے گا۔ جب تک بلوچ سرزمین سے اس قبضہ گیر کا خاتمہ نہیں ہوگا جب تک قابض بلوچ سرزمین پر موجود رہے گا، ہم کسی بھی طرح بلوچ قوم کو ایک منظم اور خوشحال قوم نہیں بنا سکتے اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہماری ساری توجہ جبری قبضہ پر ہو اور اسکے خلاف جد وجہد کرکے اسکا  خاتمہ کیا جائے۔

ٹی بی پی: بی ایس او آزاد میں شمولیت کسی طالبعلم کیلئے جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے، ایسی حالت میں کوئی تنظیم کو کیونکر چنے؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: اگر بات موت اور زندگی کے خطرے کی ہے تو میرے خیال سے ہر دوسرے دن کوئی نوجوان جبری گمشدگی، ریاستی جبر یا فیک انکاؤنٹرکا نشانہ بن کر شہید ہوتا ہے یا قبضہ گیر کے نفسیاتی وار کی وجہ سے زندگی سے مایوس ہوکر موت کو گلے لگاتا ہے یا انفراسٹکچرکی تباہی کی وجہ سے روڑ ایکسیڈنٹ میں مارا جاتا ہے، ان سب کے علاوہ ہزاروں نوجوان  بے معنی اور ذہنی طور پر مفلوج ہوکر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک بی ایس او آزاد و قومی آزادی سے جڑے ادارے انسان کی زندگی کو معنی دیتے ہیں یا انہیں بامعنی بناتے ہیں۔ ایک غلام ہوکر آپ زندگی کا وہ تصور نہیں کر سکتے جو آزاد سماج میں پایا جاتا ہےبلکہ وہ زندگی یہاں میسر ہی نہیں۔ آپ بطور انسان جن کامیابیوں کی خواہش رکھتے ہیں یہ ایک ایسے سماج میں آپ کو میسر ہو سکتی ہیں جو آزاد، خودمختار اور تمام مواقع موجود ہوں لیکن پاکستانی قبضے میں ہوتے ہوئے بلوچوں کیلئے تباہی کے راستے بہت ہونگے، کامیابی کا راستہ صرف قومی جدوجہد اور آزادی کے سفر میں پنہاں ہے۔

اگر بھگت سنگھ جیسے نوجوان انگریزوں کی غلامی میں ایک نوکری کو کامیابی سمجھتے تو آج ہندوستان کے لاکھوں افراد کو یہ زندگی میسر نہیں ہوتی، اسی طرح اگر فیدرل امریکی، لینن و ٹراٹسکی زار روس کی، جنرل گیاب جیسے لوگ امریکی غلامی قبول کرتے تو آج ان کے لوگوں کو یہ آزادی میسر نہیں ہوتی، یہی مثال دنیا بھر کے انقلابیوں کیلئے ہے، جنہوں نے قبضہ گیر کے خلاف لڑ کر اپنی اقوام کو اس مقام تک لے آیا۔ اگر امریکی اور یورپین قوم برٹش کی غلامی میں اپنے لیے کامیابی کی تصور کرتے تو آج ان اقوام کی تشکیل نہیں ہوتی۔ میرے نزدیک نوجوان صرف تحریک بلکہ اس غلامی کے دوران زندگی کی تلاش میں اس جدوجہد کاحصہ بنیں۔ باقی ایک غلام کی زندگی ہر وقت خطرے میں ہوتی ہے، چاہے اس کا تعلق تنظیم سے ہو یا نہ ہو، آج ہر دوسرے دن کوئی طالب علم اٹھایا جاتا ہے، ان کی پروفائلنگ ہوتی ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حیات بلوچ  اور احتشام جیسے طلباء کو بیچ چوراہوں پرگولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، ڈاکٹر مختار اور شہزاد جیسے نوجوانوں کو فیک انکاؤنٹر میں نشانہ بناکر قتل کیا جاتا ہے۔ ان کا تعلق بی ایس او آزاد سے تو نہیں تھا پھر انہیں کیوں نشانہ بنایا گیا؟

 میرے نزدیک کوئی بھی بلوچ نوجوان اس وقت ریاستی جبر سے محفوظ نہیں اس لیے نوجوان اس عمل اور فکر کا حصہ بنیں جس سے قابض کا اس سرزمین سے خاتمہ ممکن ہو سکیں۔

ٹی بی پی: بی ایس او آزاد پر ریاستی اداروں کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ ایک طلباء تنظیم نہیں بلکہ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے سہولت کار ہیں، ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: پاکستان کے نظر میں ہر دوسرا بلوچ نوجوان آزادی پسند مسلح مزاحمت کاروں کا سہولت کار ہے، اس لیے آئے دن بلوچستان کے کونےکونے میں لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے، ان کے گھروں پر بمباری کی جاتی ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستانی ادارے صرف بی ایس او آزاد نہیں بلکہ بلوچ نوجوان ان کے رویے سے اچھی طرح آشنا ہیں، وہ ہر دوسرے بلوچ نوجوان کو مزاحمت کاروں کا سہولت کارسمجھتے ہیں۔ جبکہ بی ایس او آزاد پر یہ الزامات عائد کرکے وہ اپنے لوگوں کو بلوچ نوجوانوں کے خلاف جاری بربریت اور طاقت کےوحشیانہ استعمال کو جواز دینے کی کوشش کرتی ہے۔

بی ایس او آزاد کے نوجوان فکری اور نظریاتی طور پر بلوچ آزادی کے نظریے پرگامزن ہیں، البتہ ہمارا طریقہ کار تشدد پر مبنی نہیں بلکہ ہم بلوچ نوجوانوں کو علمی و فکری، سیاسی و نظریاتی طور پر پاکستانی قبضے کے خلاف آگاہی دیتے ہیں، انکی تربیت کرتے ہیں۔ بی ایس او آزاد کے چئیرمین سے لیکر ممبران تک اس وقت تک سینکڑوں ساتھی قبضہ گیر نے پکڑنے کے بعد شہید کیے ہیں لیکن جب بھی انہیں اٹھایا گیا ہے تو انکے ہاں قلم اور کتابوں کے علاوہ اور کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ اگروہ آزادی پسند مسلح جہدکاروں کے سہولت کار ہوتے تو تنظیم کے چیئرمین کو ایسے خالی ہاتھ گرفتار کرکے جبری طور پر لاپتہ نہیں کیا جاتا۔ آزادی کے فکر وفسلفے پر یقین رکھنے والا ہر بلوچ دشمن کے نظر میں مسلح مزاحمت کار ہے اس لیے وہ یہ پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے، البتہ تنظیم اپنےطریقہ کار کا واضح اور اعلانیہ طور پر اظہار کرتا ہے کہ بی ایس او آزاد سیاسی علمی و نظریاتی بنیادوں پر تحریک کو منظم ومتحرک رکھنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔

ٹی بی پی: بطور نومنتخب چئیرمین آپکو کن مسائل کا سامنا ہے؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: یقینا اس وقت بطور تنظیم ہمیں بہت سے سخت چیلنجز کا سامنا ہے، ایک طرف جہاں دشمن نے قومی جہدکاروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا ہوا ہے اور بلوچستان میں سیاسی جدوجہد پر قدغن عائد ہے، وہیں دوسری جانب ریاست مختلف طریقوں سے بلوچ نوجوانوں کو برین واش کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ ریاست ایک طرف طاقت کا وحشیانہ استعمال کرکے نوجوانوں کو قومی تحریک اور جدوجہد سے خوفزدہ کرنا چاہتا ہے تو دوسری جانب اپنی سافٹ پاور پالیسی کے تحت بلوچ نوجوانوں کو کرپٹ سسٹم کے اندر لانےاور انہیں کرپٹ کرنے کی کوششیں جاری رکھا ہوا ہے۔ کیڈٹ کالجز اور حالیہ دنوں پرائیوٹ سینٹرز کی صورت میں طلباء کو ذہنی طورپر مفلوج کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اس میں کچھ مقامی کاسہ لیس اور نام نہاد تعلیم یافتہ بھی شامل ہیں۔ جبکہ ایک طرف مدرسہ کلچر کو بھی پروان چڑھایا جا رہا ہے تاکہ بلوچ طلباء کے اندر سوچ و فکر اور تخلیق کرنے کی صلاحیتیں مکمل طور پر منجمدرہیں۔

 آج مختلف این جی اوز بھی اس ضمن میں ریاست کے پیرول پر کام کر رہے ہیں اسی طرح بلوچستان بھر میں رد انقلابی قوتیں جو مختلف نام اور آئیڈیالوجی کے طور پر خود کو عوام کے سامنے انقلابی پیش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن حقیقی طور پر وہ آخر میں قومی تحریک مخالف اور جدوجہد کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح نوجوان و تحریک کیلئے نقصاندہ ہیں۔ ان سب کا مقابلہ کرنا اور بلوچ نوجوانوں کو قومی آزادی کے عظیم فکر و فسلفے پر گامزن کرنا یقینا مشکل اور تکلیف دہ سفر ہے لیکن بی ایس او آزاد کے کارکنان پر مجھے پختہ یقین ہے کہ وہ ان تمام چیلنجز کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کرکے انہیں شکست سے دوچارکرینگے۔

ٹی بی پی: کیا وجہ ہے کہ آپ کونسل سیشن منعقد کرتے ہیں اور الیکشن کا بھی دن رکھتے ہیں لیکن گذشتہ پانچ کونسل سیشنوں سے آپکی تنظیم میں تمام عہدیدار بلامقابلہ ہی منتخب ہوکر آتے ہیں؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: ایسا نہیں کہ تنظیم کے تمام عہدیدار بلامقابلہ منتخب ہوکر آتے ہیں البتہ تنظیمی پالیسی کے تحت صرف دو عہدیداروں کا نام میڈیا میں لایا جاتا ہے جبکہ سینٹرل کمیٹی سمیت دیگر کابینہ عہدیداروں کا نام میڈیا میں نہیں لایا جاتا جس کی وجہ سے شاید یہ تاثر قائم ہے کہ تنظیمی کونسل سیشن میں الیکشن کا رجحان نہیں ہے۔ تئیسویں مرکزی کونسل سیشن میں تمام سینٹرل کمیٹی کےممبران الیکشن کے ذریعے منتخب ہوکر آئے ہیں، اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ یہ سیاسی سوچ کی بڑھوتری ہے کہ موجودہ تنظیمی ساتھی ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے عہدے کیلئے کسی بلاوجہ ریس میں پڑنے کے بجائے ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں، البتہ اس کے علاوہ بھی تمام ساتھیوں کو یہ اختیار مکمل طور پر دیا جاتا ہے کہ وہ آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق الیکشن فیس جمع کرکے کسی بھی عہدے کیلئے اپنا فارم جمع کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔

ٹی بی پی: موجودہ عالمی و علاقائی سیاست کے تناظر میں، کوئی معنی خیز تبدیلی لانے کیلئے آپ بی ایس او آزاد کا کیا ممکنہ کردار تصور کرتےہیں ؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: بی ایس او بطور ایک طلباء تنظیم ان تبدیلیوں کے حوالے سے بلوچ نوجوانوں کی علمی و فکری تربیت پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی کوشش کرے گی۔ اس ضمن میں تنظیم یہی جدوجہد کر رہی ہے کہ عالمی سیاست میں بدلتے ان اتار چڑھاؤ کے حوالے سے زیادہ سےزیادہ لٹریچر پیدا کیا جائے اور نوجوان اور تحریک سے جڑے سیاسی جہدکاروں کیلئے اس ضمن میں ایک جامع لٹریچر پیدا کرنے کےساتھ ساتھ نئے پیدا ہونے والے معاملات کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کیا جائے تاکہ تحریک سے جڑے سیاسی جہدکاراس ضمن میں ان سے استفادہ حاصل کرسکیں۔ بطور تحریکی اسکول، ہم اس مائنڈ سیٹ کو پیدا کرنا چاہتے ہیں جو ان حالات سے متاثرہوکر پھر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا نہ صرف سوچیں بلکہ سیاست کے ان اتار چڑھاؤ کا ادراک رکھتے ہوئے ممکنہ تبدیلی سے پہلےتحریک اور جدوجہد کے حوالے سے ایک لائحہ عمل تشکیل دے سکیں۔

 تحریک سے جڑے سیاسی جہدکاروں پر خاص کر یہ بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان معاملات کا گہرائی سے مطالعہ کریں کیونکہ علاقے اور عالمی سیاسی منظر نامے میں پیدا ہونے والی کوئی بھی تبدیلی کسی نہ کسی طرح بلوچ قومی تحریک پر بھی اپنی اثرات ڈالتے ہیں، کیونکہ موجودہ ورلڈ آرڈر میں دنیا مکمل طور پرکیپیٹلزائزیشن میں ہے اور کیپیٹلسٹ دنیا میں پیدا ہونے والا چھوٹا مسئلہ اپنے اثرات پوری دنیا پر چھوڑتا ہے۔ ایسے وقت میں یہ بہت ضروری ہے کہ ہم بطور تحریک ان بدلتے حالات کا بخوبی علم رکھیں اور بدلتے ہوئے حالات میں تحریکی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کرکسی بھی ممکنہ تبدیلی کی صورت میں بولڈ فیصلہ سازی کریں تاکہ ہم عالمی منظر نامے میں تبدیل ہونے والے سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھا سکیں اور کسی بھی نقصان سے محفوظ رہیں۔

ٹی بی پی: بی ایس او آزاد کے چیئرمین منتخب ہونے کے بعد آپ اب براہ راست ریاست کے ہائی ویلیو ٹارگٹ بن چکے ہیں، کیا آپ اس خطرے کیلئے تیار ہیں، اور کیا کسی طالبعلم کو یہ خطرہ اٹھانا بھی چاہیئے؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: انقلابی جدوجہد کے اپنے تقاضے اور ضرورتیں ہوتی ہیں، میرے خیال سے آج جو ساتھی اس جدوجہد کے سفر پر گامزن ہیں انہیں اس انجام کا اچھی طرح سے علم ہے اور بطور ایک جہدکار میں نے شعوری طور پر اپنے آج اور کل کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے ذہنی طور پراس خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار ہوں۔ بی ایس او آزاد میں رہتے ہوئے ان آٹھ دس سالوں میں بہت سے مشکل حالات دیکھے ہیں اورشعوری و فکری بنیادوں پر اس فلسفے پر یقین رکھتا ہوں کہ اس جدوجہد میں ہی اصل زندگی موجود ہے۔ بطور ایک طالب علم ہمارےسیاسی سرکل کو پوری طرح قبضہ گیر نے فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے سے ہمارے دوست، ساتھی اور عام نوجوانوں کو روزانہ کی بنیاد پر اٹھایا جاتا ہے انہیں نقصان پہنچایا جاتا ہے، اس لیے میں بھی ذہنی طور پر تیار ہوں کہ احتیاط کے باوجود ہم بھی اٹھائے جاسکتے ہیں، ہم بھی پوسٹر بن سکتے ہیں، ہماری بھی مسخ شدہ لاش ہمارے دوستوں کو پہنچایا جاسکتا ہے لیکن انقلابی جدوجہد کے تقاضے یہی ہیں اور ہم اس کیلئے مکمل طور پر تیار ہیں۔

دوسری بات یہ کہ ایک طالب علم کو یہ خطرات اٹھانا چاہیے یا نہیں میرے نزدیک ہم آزاد سماج  یا آزاد ریاستوں کے طالب علم نہیں بلکہ پنجابی سامراج کے زیر تسلط، اپنی قومی شناخت سے محروم، اپنے ساحل و وسائل سے محروم اور آزادی سے محروم ایک غلام قوم سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ایک غلام کی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔ بلوچ نوجوان بلوچستان کے زمینی حقائق اور حقیقتوں کاادراک رکھتے ہوئے اپنے آج اور کل کا فیصلہ کرلیں اور میں شعوری طور پر اس خطرے کو جائز سمجھتا ہوں کیونکہ غلام کی زندگی کسی بھی حالت میں خطرے میں رہتی ہے۔ اصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ قبضہ گیر کے سامنے ہر بلوچ نوجوان ایک خطرہ ہے اور وہ ہر بلوچ نوجوان کو اپنا دشمن تصور کرتا ہے۔

ٹی بی پی: کوئی کامریڈ، دوست جسے آپ اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہو اور کیوں؟

چیئرمین بی ایس او آزاد: جہد آزادی کے سفر میں شہید ہونے والے اور زندان میں قید تمام ساتھی و دوست میرے آئیڈیل ہیں، میرے پاس ان کی تعریف کیلئےکوئی الفاظ نہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ اس دھرتی کی آزادی کیلئے قربان کیا، البتہ اگر بات ایسے کردار کی ہو جس نے قومی تحریک میں مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے تو وہ کمبر چاکر ہے۔ کمبرچاکر اپنے آپ میں ایک انقلاب تھا اور انقلاب کے تمام اصولوں کے قالب میں اترتا تھا۔ اگر کوئی مجھ سے کسی ایسے انقلابی جہدکار کا پوچھے جو انقلاب کے تمام تقاضوں پر پورا اترتا ہو تو میں وہاں بلا ججھک کمبر چاکر کا نام رکھ سکتا ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے مکمل انقلاب کا معنی پوچھے، تو اس بڑے سوال کا مختصر و جامع جواب صرف اور صرف کمبر چاکر کا نام ہے۔

  میرے نزدیک کمبر موجودہ جدوجہد کا وہ انقلاب ہے جنہوں نے ہزاروں نوجوانوں کو اس عظیم عمل اور مقصد کیلئے تیار کیا۔ اس کی کمنٹمٹ، جذبہ قربانی اور کردار بہت سے سوالوں کا جواب اور بہت سے کنفیوژن کا حل ہے۔ کمبر اپنے آپ میں ایک تحریک ہے جو دشمن پر ہر روزکاری ضرب لگا رہی ہے۔ ریاست کا کوئی بھی ہتھکنڈا اور ہتھیار کمبر پر کام نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ سچے انقلابی کا نشان تھا۔ میرے نزدیک کمبر کا جلدی چلے جانا بی ایس او آزاد ہی نہیں بلکہ تحریک کیلئے بھی سنگین نقصان تھا۔

موجودہ دور میں انقلابی نوجوان کمبر چاکر کا مطالعہ کریں، انہیں پڑھیں ان کے عمل اور کردار سے آشنائی حاصل کریں،  کیونکہ کمبر ہی غلامی سے چھٹکارے کا حل اور کمبر ہی زندگی کا معنی ہے۔ کمبر چاکر جیسے نوجوان آزادی کے جدوجہد کے تقاضے ہیں۔ سست، کمزور اورخوفزدہ نوجوان غلام قوموں کے اندر بیمار لوگوں جیسے ہیں جن کی زندگی اور موت کسی کیلئے بھی معنی نہیں رکھتے بلکہ یہ آزادی کے سفر پر گامزن کمبر چاکر جیسے نوجوان ہیں جو نہ صرف غلام قوموں کو ایک منزل تک پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں بلکہ اپنے فکراور نظریے کیلئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے۔

ٹی بی پی: اگر آپکو ان بلوچ نوجوانواں کو ایک پیغام دینا ہو جو بی ایس او آزاد کا حصہ نہیں ہیں، تو آپ کیا کہیں گے؟ 

چیئرمین بی ایس او آزاد: بلوچ نوجوانوں کو یہی کہونگا کہ اپنی طاقت اور حیثیت کا ادراک رکھیں اور موجودہ وقت میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور جبر کےساتھ ساتھ ان تمام بیماریوں کا مشاہدہ کریں کہ وسائل سے مالا مال ایک سرزمین اتنی بڑی تہذیب و کلچر ہونے کے باوجود کیوں آج یہاں ایک بلوچ ماہیگیر اپنے ساحل پر جا نہیں سکتا؟ کیوں آج بلوچ مزدور اپنے زمین پر غیر مقامیوں کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر بےعزتی کا سامنا کرتا ہے؟ کیوں آج پڑھنے کیلئے ان کے پاس بہترین معیار تعلیم نہیں؟ کیوں آج ان کی بہنیں اٹھائی جا رہی ہیں؟ کیوں بلوچ آج کسی بھی جگہ سکون سے زندگی نہیں کر پا رہا؟ اس کی وجہ غلامی ہے اور اس غلامی سے چھٹکارہ پانے کا واحد حل ایک آزاد بلوچ ریاست میں پنہاں ہے۔ یہ سرزمین صرف سیاسی جہدکار اور سرمچاروں کا نہیں بلکہ اس پر ہر بلوچ کا حق ہے اور اس کاحق ادا کرنا ہر بلوچ پر فرض ہے۔ آپ نیوٹرل رہ کر یا جدوجہد سے دور رہ کر کسی نہ کسی طرح ریاست کا ہی معاون ہوتے ہیں کیونکہ ایک جنگ زدہ قوم میں کوئی نیوٹرل نہیں رہ سکتا۔ ہمیں قومی مستقبل کا سوچ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کیلئے کیا مستقبل چھوڑنا چاہتے ہیں؟