ریکوڈک پراجیکٹ میں بدعنوانی کا انکشاف

216

پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے (نیب) کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سونے، چاندی اور تانبے کے کھربوں روپے مالیت کے ریکوڈک پراجیکٹ میں بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

نیب بلوچستان کے ترجمان کے مطابق بد عنوانی کے الزام میں کوئٹہ کی احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے اور اس میں مجموعی طور پر 26 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔

بدھ کو نیب کے کوئٹہ دفتر سے جاری کیے گئے بیان میں اسے نیب کی تاریخ کا سب سے پیچیدہ اور بڑا کیس قرار دیا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق نیب کی تحقیقاتی ٹیم مختلف محکموں کے 30 سال کے ریکارڈ کے چھان بین کے بعد قومی خزانے کو کھربوں روپے نقصان پہنچانے والے ملزمان کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئی۔

خیال رہے کہ ایک عالمی ثالثی عدالت نے جولائی 2019ء میں اس منصوبے کیلئے آسٹریلیا اور چلی کی مشترکہ مائننگ کمپنی کی لیز منسوخ کرنے پر پاکستان پرچھ ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ عائد کیا تھا لیکن بعد میں پاکستان نے اس پر مئی 2021 تک حکم امتناع حاصل کیا۔

نیب ترجمان کے مطابق سال 1993 میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بروکن ہلز پروپرائیٹری نامی آسٹریلیوی کمپنی کے مابین چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ ونیچر کا ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں حکومت بلوچستان بالخصوص بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے افسران کی جانب سے آسٹریلوی کمپنی کو غیر قانونی فائدہ پہنچایا گیا ۔

نیب کے مطابق معاہدے کی شرائط کو مزید مستحکم کرنے کے لیے غیر قانونی طریقہ سے بلوچستان مائینگ کنسیشن رولز میں ترامیم کی گئیں۔ بار بار غیر قانونی طور پر ذیلی معاہدات کرکے ٹیتھیان کاپر کمپنی نامی نئی  کمپنی کو متعارف کرا کے اربوں  روپے  کے مالی فائدے حاصل کیے گئے۔ جبکہ محکمہ مال کے افسران کی جانب سے زمین کی الاٹمنٹ اور دیگر امور میں بھی بے قاعدگیاں سامنے آئیں اور ملزمان نے اس مد میں مالی فواہد لینے کا اعتراف بھی کیا۔

نیب ترجمان نے مزید بتایا کہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال اور گواہان کے بیانات سے معلوم ہوا کہ غیرملکی کمپنی یعنی ٹی سی سی کے نمائندے بھی سرکاری ملازمین کو رشوت دینے اور ناجائز طور پر مفادات حاصل کرنے میں ملوث پائے گئے۔  اس لئے نیب نے غیر کمپنی کے بیرون ملک عہدے داروں کو بھی ریفرنس میں نامزد کردیا ہے۔ بیرون ملک مقیم ان ملزمان کو بارہا طلب بھی کیا گیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے۔

نیب نے ملزمان کے نام ظاہر نہیں کیے تاہم ذرائع کے مطابق پرویز مشرف دور میں عہدے پر رہنے والے ایک سابق گورنر اور بلوچستان کے مختلف محکموں کے کئی سابق سیکریٹریز کی سطح کے افسران بھی شامل ہیں جبکہ غیر ملکی کمپنی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے سات غیر ملکی افسران پر بھی بے ضابطگیوں اور بد عنوانی کا الزام لگایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ریکوڈک ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں ٹھیتیان کی اراضیاتی پٹی پر واقع ہے۔

ریکوڈک معاہدے میں بدعنوانی کے الزامات اس سے پہلے بھی لگائے گئے تھے جس کی بناء پر اس معاہدے کو پاکستان کی سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے یہ معاہدہ کالعدم قرار دے دیا تھا جس پر ٹھیتیان کمپنی نے بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ سے رجوع کیا۔