گوادر کی خودساختہ ترقی بلوچ کا استحصال ہے۔گوادر سیمنار

202

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے گْوادر،ترقی دعوے اور حقیقت کی عنوان سے گوادر پریس کلب میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

جس کی صدارت چئیرمین بی ایس او بالاچ قادر نے کی جبکہ مہمان خاص بی این پی کے مرکزی جوائینٹ سیکریٹری میرنزیر بلوچ تھے۔سیمنار کے پہلے حصے میں گْوادر فنسنگ اور مقامی آبادی کے مسائل پر پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا تھا جس کے پینلسٹ سابق ایم پی اے گْوادر میرحمل کلمتی،بی این پی ضلع گْوادر کے صدر ماجد سہرابی اور بی ایس او کے سابق رکن مرکزی کمیٹی کریم شمبے تھے جبکہ پینل کو بی ایس او کی سینٹرل کمیٹی کے رکن کرم خان بلوچ نے موڈریٹ کیا۔

سیمینار کے دوسرے حصے میں چئیرمین بی ایس او بالاچ قادر،بی این پی کے جوائنٹ سیکریٹری میرنزیربلوچ،سابق چئیرمین بی ایس او ایڈوکیٹ سعید فیض،بی این پی کے ریسرچ اینڈ پبلی کیشن سیکریٹری ڈاکٹر قدوس بلوچ ,گْوادر کے سیاسی رہنما عابد رحیم سہرابی نے خطاب کیا۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اپنے حق حاکمیت اور قومی تشخص پر کسی بھی صورت سجھوتہ نہیں کرینگے۔بلوچستان کے وسائل پر دسترس اور فیصلہ سازی سے متعلق ریاستی پالیسیاں کالونی کی ہیں۔اس ملک میں طاقت ور طبقہ گزشتہ سات دہائیوں ڈنڈے کی زور پر لوٹ مار جاری رکھا ہوا ہے۔

مقررین نے کہا ہے کہ گْوادر کی ترقی کے دعوے حقیقت کے برعکس ہیں۔ یہاں کی خودساختہ ترقی بلوچ کا استحصال ہے۔ ہم ایسے ترقی کو ہرگز تسلیم نہیں کرینگے جس سے بلوچ عوام کو مذید جبر و استحصال میں مبتلاء کرکے انکو اقلیت میں تبدیل کرانا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ترقی کا ڈھونگ رچاکر گْوادر کی مقامی آبادی کو بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ گْوادر شہر کی فنسنگ کرکے اسے سیکورٹی زون میں تبدیل کیا جارہا ہے جہاں مقامی آبادی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ جب گْوادر پورٹ کا افتتاح کیا گیا اس وقت بلوچ قوم پرستوں کا خدشہ تھا کہ بلوچ ساحل پر قبضہ کیا جا ئے گا ۔ترقی کے نام پر مقامی آبادی کو ان کے جدی پشتی زمینوں سے بیدخل کرکے غیر مقامی آباد کاروں کو لا کر بسانا اور مقامی بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے گا۔آج وہ تمام خدشات ایک ایک کر کے درست ثابت ہو رہے ہیں۔ آج ہمیں یہ بھی خدشہ ہے کہ مستقبل میں گوادر کو بلوچستان سے الگ کر کے ایک سٹیٹس دیا جائے۔ ان تمام مسائل اور گوادر کو بچانے کی خاطر تمام بلوچ جماعتوں، طلبا تنظیموں کو ساتھ مل کر جدوجہد کرنا ہوگا۔