بی ایل اے نے سربراہ بشیرزیب بلوچ کی ایک ویڈیو پیغام جاری کردی

4306

بلوچستان میں سرگرم مسلح آزادی پسندتنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ کا 25 منٹ پر مشتمل کا ایک ویڈیو پیغام تنظیم کے میڈیا چینل ہکّل پر جاری کی گئی ہے۔ مذکورہ پیغام بلوچی زبان میں ہے۔

ویڈیو کی ابتداء میں بی ایل اے کے سربراہ کے ساتھ تنظیم کے دیگر جنگجووں کو جدید ہتھیاروں کے ساتھ پہاڑوں میں مارچ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ بی ایل اے سربراہ کو اسکواڈ دینے والے ارکان کے وردی اور بیجز سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں بی ایل اے مجید برگیڈ، بی ایل اے اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ اور بی ایل اے فتح اسکواڈ کے ارکان شامل ہیں۔

علاوہ ازیں ویڈیو کے درمیان بی ایل اے مجید برگیڈ کی خاتون فدائین پر مشتمل ارکان کو بھی دکھایا گیا ہے۔ 

بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب بلوچ بلوچی زبان میں مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ہم نے تشدد کا راستہ کیوں اختیار کیا ہے، پاکستان جیسے قبضہ گیر تشدد کے بغیر کسی زبان کو نہیں سمجھتیں، پاکستان کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ جبر، وحشت، طاقت کے زور پر قبضہ آور ہے تو اسکو طاقت کے زور پر روکا جاسکتا ہے۔ اسکی جبر اور ظلم کے سامنے آپکے آنسو، فریاد، دھرنے جلسے اور مظاہرے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔

بی ایل اے کے سربراہ نے کہا کہ جو لوگ پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں وہ خود اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ بے بس ہیں انکے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ دشمن اپنے عمل سے ہمارے نظریہ کو سچ ثابت کررہا ہیں کہ تشدد کو تشدد سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے اس بندوق کو شوق سے نہیں اٹھایا، مرنے اور مارنے کے کیلئے ہم شوق سے نہیں نکلے ہیں، یہ ہمارا شوق نہیں بلکہ مجبوری ہے کہ ہم اپنے دفاع کے لئے اس جنگ کو لڑ رہے ہیں، ہم دفاعی پوزیشن میں ہیں وہ (پاکستان) طاقت اور بندوق کے زور پر قبضہ آور ہوا ہے۔

بشیر زیب بلوچ نے کہا کہ مسلح جدوجہد اور مہذب اقوام کو دیکھا جائے تو آج وہی ممالک اور اقوام مہذب اور جمہوریت پسند کہلائے جاتے ہیں جو جنگ کے بدترین دور سے گذرے، جنگ و مسلح جدوجہد کی انتہاء کو پہنچ کر آج یہاں تک پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم وہاں تک نہیں پہنچے کہ کوئی ہماری آواز سنے وہاں تک پہنچنے کے لئے ہمیں اس جنگ کو انتہا تک لیجانا ہے تاکہ ہماری آواز سنی جائے۔

انہوں نے یوکرائن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جنگ کی تباہی کے دہانے پر پہنچ کر اپنا دفاع کیا اور دنیا نے انکی مدد کی ۔

بشیر زیب بلوچ نے کہاکہ ہماری فریاد اور آہ و بقا کا ایک دائرہ ہوسکتا ہے لیکن وہ کسی کی توجہ حاصل نہیں کرسکتے، انکا کہنا تھا کہ عالمی اور انسانی قانون کو ہم اپنے سوچ اور خواہش کے مطابق پیش نہیں کریں؛ فدائی حملے، دستی بم، کلاشنکوف اس مسلح جنگ کے حصے و ذرائع ہیں، ان کو الگ الگ پیش نہیں کیا جائے، یہ جنگ کے حصے ہیں اور تمام دنیا نے انہی طریقہ کار کو استعمال کیا ہے۔

سربراہ بی ایل اے نے کہا کہ ہمیں جنگ سے نفرت ہے جنگ ہمیں پسند نہیں ہم امن پسند لوگ ہیں لیکن امن جنگ سے نکلی ہے، کوئی کہتا ہے کہ مزاکرات تو ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں ہم آزادی کے نقطے پر مزاکرات کرنے کو تیار ہیں۔ ہم اپنے جنگ کو مزاکرات کی ٹیبل پر لیجانے چاہتے ہیں، قومی آزادی کے لئے اس جنگ کو مزید تیز کرنا ہوگا جب تک ایک موثر جنگ نہیں لڑی جائے گی وہ ٹیبل بھی ہمیں میسر نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ جنگ مہذب اور شریفانہ انداز میں نہیں لڑی جاسکتی ہے، ہمیں اپنے جنگ کو یہاں تک لانا ہوگا کہ اسلام آباد، پنجاب ، پنڈی، لاہور اور گجرانوالہ کے لوگ باہر نکلیں، فریاد کریں اور پاکستان سے کہیں کہ اب بس کرو بلوچستان میں جنگ کو بند کرو۔

اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہاکہ خواتین سے متعلق کہا جاتا ہےکہ ان کو جنگ میں کیوں شامل کیا جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ ان کو جنگ میں شامل کیوں شامل نہیں کیا جائے؟

“خواتین اور مرد میں کیا فرق ہے؟ انکی صلاحیت، بہادری، ہمت اور مستقبل مزاجی کسی بھی شے میں فرق نہیں ہے، اگر کوئی روایتی رجعت پسندی کے لحاظ سے یہ بات کہتا ہے تو وہ اپنے آپکو کیسے ترقی پسند اور پڑھا لکھا کہتا ہے جو خواتین کی صلاحیتوں کا استحصال کررہا ہے۔ جنس کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے وڈیو پیغام میں کہاکہ جو کہتے ہیں کہ خواتین کی جنگ میں شمولیت روایات کے خلاف ہے تو کونسے روایات؟ شہید خان محراب خان کیمثال دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ انکی بیوی گنجان بی بی اسکے دربار میں مشیر کی حثیت سے موجود ہوتی تھی، میری پر حملے کے دوران اس کا اہم کردار تھا، محراب کی شہادت کے بعد گنجان بی بی نے اپنے لوگوں کو سنبھالا، شہداء کو کفن دفن کیا، یہی بلوچ روایات ہیں۔ اسلامی روایات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے صحابی صبیحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جنگ میں بہادری سے کردار ادا کیا تو حضور پاک نے انہیں امہُ حمیرہ کا لقب دیا۔ ایسے ہزاروں اسلامی روایتیں ہیں کہ جنگوں میں کئی خواتین کا اہم کردار رہا ہے ۔

انہوں کہاکہ دوسرے اقوام میں بھی جنگ میں خواتین کا کردار اہم رہا ہے۔ وینی منڈیلا، سمیرم کرد، لیلیٰ خالد، جمیلہ الجزائری اور دیگر بڑے نام موجود ہیں۔ بلوچ روایات، اسلامی روایات یا انسانی روایات میں خواتین میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دشمن کا بیانیہ ہے اور اس بیانیہ کو افسوس کے ساتھ بلوچ آزادی پسند، انسانیت پسند اپنالیں کہ ہم خواتین کو استعمال یا ڈال بنا رہے ہیں، یہ غلط اور دشمن کا بیانیہ ہے۔

سربراہ بی ایل اے نے کہاکہ ہم نادانی یا لاشعوری طور پر دشمن کے بیانیہ کو آگے لیجارہے ہیں کہ خواتین اگر جنگ میں شامل ہوں تو خواتین کو اٹھایا (لاپتہ کیا) جائے گا۔ خواتین کا ہر لحاظ سے اہم کردار ہے، پاکستان کہتا ہے کہ خواتین کو میں اٹھاونگا اور اسی ریاستی بیانیہ کو ہم آگے لیجاتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ یہ دلیل نہیں بلکہ ہنسنے والی بات ہےکہ دشمن جنگ کی وجہ سے خواتین کو اٹھائے گی، طالب علم جنگ میں شامل نہیں ہوں کہ طالب علم کو اٹھائیں گے، انجینئر، ڈاکٹر، اساتذہ، سیاسی کارکن، علماء، قبائلی عمائدین جنگ میں شامل نہیں ہوں کہ دشمن انکو اٹھائے کی، پھر جنگ کون کرے، جنگ کو کون آگے لیجائے گی؟

انہوں نے زبان اور ثقافت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ہماری زبانیں بلوچی، براہوئی، جدگالی، کھیترانی، دہواری لاسی اور ثقافت کے خلاف جو کام کرے گا وہ مخبری کے زمرے میں آتا ہے، اور جو اپنے وطن اور آزادی کے لئے کام نہیں کرتے انکی زبان اور ادب دوستی صرف نمائشی ہے۔ وطن ہوگی تو زبان اور کلچر رہیں گے ۔

انہوں نے کہاکہ وطن، زبان اور ثقافت دوستی کے لئے نمائش کی نہیں بلکہ جنگ کا حصہ بننا ہوگا اگر جنگ نہیں کرسکتے تو اس کی حمایت کریں لیکن مخالفت نہیں۔

شہید صباء دشتیاری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زبان اور ادب کے بارے میں ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ وہ وطن اور زبان دوست ہے، زبان اور ثقافت کو بچانے کے ذرائع وہ جانتا تھا، وہ آزادی اور جنگ کا حمایتی تھا انہوں نے اپنے خون سے یہ ثابت کیا۔ آج ایک دستار باندھنے اور پروگرام کرنے سے ہم وطن دوست نہیں ہوسکتے ہیں ہمیں اس جنگ کی حمایت اور دشمن سے نفرت کرنا ہوگا جو وطن اور زبان کی بقاء کے لئے لڑی جارہی ہے۔

سربراہ بلوچ لبریشن آرمی نے کہاکہ اور بھی ذرائع ہیں، انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں سرفیس سیاست کرتے ہیں، ہمیں کوئی انکار نہیں لیکن یہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہیے کہ ہمارے مسائل کا حل جنگ ہے، اور ہمیں جنگ کرنا ہوگا جنگ کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم سفارت کاری کا نام لیتے ہیں اس کا سادہ سیدھا مطلب یہی ہے کہ ہم اس طاقت کو حاصل کریں کہ دنیا ہم سے اس ٹیبل پر بیٹھ کر بات کرے کہ ہم کیا چاہتے ہیں وہ ہمیں کیا دینگے ہم ان کے لئے کیا کرسکتے ہیں ، ایک دوسرے کے مفادات پر بات ہو، کچھ لوں اور دوں کی بنیاد پر اس کے علاوہ کوئی سفارت کاری نہیں ہوتی، چھوٹے موٹے خیرات کو سفارت کاری نہیں کہہ سکتے، اپنے ذہنی خواہش کو سفارت کاری نہیں کہہ سکتے، جب تمہیں مدد اور کمک ملے گی تو یہی سفارت کاری ہوگی۔ ہمارا ہمسایہ اور دور کوئی ملک جمہوریت اور انسانیت سے ہٹ کر میرے اور اپنے مفادات کو لے کر بات کرے یہی سفارت کاری ہے اور اس پر ہم بحث کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے مفادات کی تحفظ کیسے کرسکتے ہیں اسکے علاوہ اپنے آپکو اور قوم کو دھوکہ دینے کا مترداف ہوگا ۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان پر اتنے جبر اور ظلم ہوئے ہیں کہ جن کو ہم مہذب اور انسان دوست کہتے ہیں وہ بات کرسکتے ہیں لیکن وہ نہیں کرینگے جب تک انکے مفادات نہیں ہونگے۔

بشیر زیب بلوچ نے کہاکہ ہم جنگ کو مدلل، علمی انداز میں مستحکم کرینگے، جدوجہد کے باقی جزوں کا ہم احترام کرتے ہیں، اس پر ہم علمی بحث مباحثہ کے لیے تیار ہیں وہ کہاں کس طرح ہونگے، منطق کے ساتھ ہم بات کرینگے ۔

انہوں نے کہاکہ جو اس جنگ کے حصہ تھے یا ہیں اور اس عمل کی مخالفت کررہے ہیں وہ ہمارا درد سر نہیں ہے لیکن جو انسانی حقوق، جمہوریت ، سرفیس کا دعویٰ کرتے ہیں وہ دل میں جانتے ہیں کہ جنگ ہی حل ہے اور وہ دانستہ اور نادانستہ طور پر جنگ کی مخالفت نہ کریں اور ریاستی بیانیہ کو آگے نہ لیجائیں ۔

انہوں نے کہاکہ وہ کہتے ہیں کہ لوگ مارے جارہے ہیں اتنے لوگ کسی گینگ وار میں مارے جاتے ہیں، ریاست مزید لوگ مارے گی اور ہم پر مزید ظلم کرے گی۔ پاکستان خواتین کے ساتھ وہی اعمال کرے گا ہم یہ ظلم بھول جائیں گے اور ہماری آنے والی نسل بھی دشمن کے ساتھ وہ کچھ کرے گی کہ دشمن بھی پچھلا سب بھول جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ ہماری آخری حد یہی کوشش ہوگی کہ عام لوگوں کا نقصان نہیں ہو اور ہم کئی اہم اہداف اسی وجہ سے حاصل نہیں کرپارہے ہیں کہ لوگوں کو نقصان نہیں ہو۔