صباء دشتیاری نے بے خوف ہو کر دانائی اور بہادری کے ساتھ اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ این ڈی پی

208

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی شال زون کی جانب سے شہید صباء دشتیاری کی بارہویں برسی پر ایک لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت شال زون کے آرگنائزر نزر مری کر رہے تھے، مہمان خاص مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی ممبران سلمان بلوچ، اشفاق بلوچ اور غنی بلوچ تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ نے پارٹی ممبران کو صباء دشتیاری شہید کی زندگی پر لیکچر دیئے۔

منظور بلوچ نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہمیں فخر ہے کہ نوجوان اپنے قوم کی ایک استاد کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے جتنے بھی ہیروز ہیں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ کیا ہے، کیا ہم صرف ان کو یاد کریں، ان کا دن منائیں، جس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی زندگی گزاری ہے، جس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی جانیں دی ہیں وہ اہمیت کا حامل ہے؟ یا صرف ان کے بارے میں ہمارے جو سرسری معلومات ہیں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں، یا اس کو باقاعدہ ایک فکر کے طور منضبط کرکے ہم سب لوگوں کے سامنے لائیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر صباء دشتیاری کی بات کی جائے تو وہ ایک نڈر اور بہادر آدمی تھے ۔سب کے منہ پہ بولتے تھے ۔ وہ اتنے بہادر تھے کہ بہت سے لوگوں نے اس کو کہا کہ تمہیں مار دیا جایے گا ۔تو صباء کہتا تھا کہ میرے مرنے سے بلوچ قوم ختم نہیں ہوگا۔ یہاں پر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ صباء زندہ ہوتا تو اور زیادہ کام کرتے۔ لیکن بڑے لوگوں کے اپنے مزاج اور اپنے اصول ہوتے ہیں ۔وہ بہادر ہوتے ہیں اور دلیری سے فیصلے لیتے ہیں نہ کہ یہ کوئی جزباتی فیصلہ کرتے ہیں ،جس طرح نواب نوروز خان اور نواب اکبر خان بگٹی جو کہ اپنے عمر کے آخری ایام میں تھے نہ کہ وہ جزباتی تھے کیونکہ اس عمر میں کوئی جزباتی نہیں شعوری فیصلہ کرتے ہیں۔
صباء نے خوف کو جھٹکا دیا۔وہ بے خوفی جو دانا بنائے اس کی ضرورت ہیں ۔اتھارٹی کا کام لوگوں میں خوف پیدا کرنا ۔اور صباء کا پیغام ہے کہ خوف کو شکست دو، بے خوفی جو کہ دانائی کے ساتھ ھو ۔خوف تخلیقی قوت چھین لیتی ہیں۔انسان اگر اپنے اصولوں پہ نہ جی سکے تو آسائشیں فالتو رہ جاتے ہیں۔

منظور بلوچ نے مزید کہا کہ حیرانگی یہ ہوتی ہے کہ جب یہی معاشرہ بابا مری کو پیدا کر سکتا ہے، شہید نواب بگٹی کو پیدا کر سکتا ہے، سردار عطاء اللہ مینگل کو پیدا کر سکتا ہے، صباء دشتیاری، شہید غلام محمد کو جنم دے سکتا ہے بہت سارے جن کے نام لوں میں شاید تھک جاؤں. تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ معاشرہ لٹریچر میں بانجھ کیوں ہے، وہاں یہ معاشرہ کیوں بڑی شخصیات پیدا نہیں کر رہا، پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر آپ کو جو مزاحمت کا مرکز ہے اس کی روایت زیادہ مستحکم ہے، لٹریچر سے زیادہ ہے. مزاحمت آج بھی موجود ہے، ویسے دیکھا جائے تو سب سے پہلے لٹریچر آتا ہے، سب سے پہلے دانش ور آتا ہے، لیکن یہاں پر آپ کے جہد کار پہلے آتے ہیں، عوام بھی آگے ہیں، المیہ یہ ہے کہ سوکالڈ دانش ور سب سے پیچھے ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صباء کو صباء کس چیز نے بنایا، اگر صباء یہ قربانی نہیں دیتے تو کیا صباء ہوتے؟ کیا ان کی ادبی شخصیت پورے بلوچستان یا پورے دنیا میں جہاں تک ان کا نام ہے سب کو متاثر کرتی؟ اگر صباء کی زندگی سے اس مزاحمتی اور سیاسی پیریڈ کو نکالیں تو صباء میں اور کیا بچے گا.
ہمیں یہ دیکھنا ہے اور سمجھنا ہے کہ صباء کی شخصیت میں وہ کونسے عناصر تھے جہنوں نے ان کو بے خوف شخصیت بنایا، جہنوں نے مراعات کی طرف ایک آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا، صباء وہ آدمی تھے وہ اسی یونیورسٹی میں انتظامیہ کے اندر کسی بھی آدمی سے کوئی ٹکے کا بھی تعلق نہیں رکھا، اگر کسی سے تعلق تھا وہ لٹریچر کی بنیاد پر تھا، اس کے اکثر دوست طلبہ، چوکیدار، مالی وغیرہ تھے، یا شاید ہم خیال لوگوں سے دوستی تھی، صباء کا جرات مندانہ اظہار کمزور کیلئے نہیں تھا وہ طاقت ور کیلئے تھا، صباء کی زندگی سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں، ہم کو چاہیے کہ ہم ان سے سیکھے، ان کو جاننے، پہچاننے، ان کی زندگی کو ریکارڈ پر لائیں تاکہ آنے والی نسل بھی صباء کو جاننے. اور علم سے ناطہ جوڑے، کیونکہ جب تک آپ علم سے ناطہ نہیں جوڑیں گے آپ بے خوف نہیں ہونگے، بے خوف لوگوں پر اتھارٹی قائم کرنا آسان نہیں ہے، صباء کی زندگی کا جو خوب صورت پہلو مجھے نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے خوف کو شکست دی اور ایک دانا کے طور پر اپنی جان کا نزرانہ پیش کیا۔