جان محمد دشتی نے بی این پی سے راہیں جدا کرلی، نئی الائنس کا اعلان

242

سابق بیوروکریٹ اور دانشور جان محمد دشتی نے بی این پی مینگل چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ بلوچ نیشنل الائنس کے نام سے نئی پارٹی بھی بنالی ۔

کیچ تربت میں میں میڈیا سے کفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 4 کروڑ بلوچ پاکستان میں، ایک کروڑ 25 لاکھ سیستان بلوچستان ایران جبکہ 75 لاکھ ہلمند اور کندھار افغانستان میں آباد ہیں۔ عمان کی آبادی کا ایک تہائی بلوچ ہے۔ 8 کروڑ لوگوں کو اختلافات ختم کرِیں ۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان ایشو پر کہنا تھا مسئلے کا حل نکالنا ہوگا ۔ بامقصد اور نیک نیتی سے بات چیت سے سلامتی اور امن کی راہ بھی نکلے گی۔

انکا کہنا تھا کہ 20 سال کے دوران لا اینڈ آرڈر، مسنگ پرسنز، صوبے کے اختیارات اور وسائل سمیت سیاسی اور انتظامی غلطیوں پر بھی تنقید کی۔ بلوچستان نیشنل الائنس آئیندہ الیکشن تربت اور گوادر سے حصہ لے گی۔ پچھلے دو دہائیوں سے جاری ایک خوفناک جنگ نے بلوچ خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس طویل جنگ میں بلوچوں کی لاشیں گر رہی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے شہروں اور آبادیوں میں پناہ گزینوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں لوگ لاپتہ کیے جاچکے ہیں یہاں تک کہ بلوچ مقتولین کی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ غیر ممالک میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

دشتی نے کہاکہ ان گھمبیر حالات میں بلوچ سیاسی پارٹیاں خاموش ہیں کیونکہ بظاہر ان کے گروہی، قبائلی یا ذاتی مفادات اس بات کا تقاضہ کر رہی ہیں کہ وہ ریاست اور بلوچوں کے درمیان امن کا راستہ ڈھونڈنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس پس منظر میں بلوچ دانشوروں، وکلا، ادیب، شعرا ، سماجی و سیاسی کارکنوں، محنت کشوں، کسانوں ، طالب علموں اور پڑھے لکھے لوگوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ بلوچستان میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی تشکیل ہو جو قبائلی ، گروہی اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر بلوچ اور بلوچستان کے مسائل کو نہ صرف اجاگر کرے بلکہ پاکستانی حکمرانوں کو یہ باور کرا دے کہ جنگ اور قتل و غارت بلوچ مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ پاکستان کے جغرافیائی حدود میں بلوچ مسئلہ کا حل با ہمی گفت و شنید سے ہی نکالا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی مہینوں کے صلاح و مشورہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چونکہ ملک میں الیکشن قریب آرہے ہیں اس لئے اس مرحلے میں ایک سیاسی پارٹی کی تنظیم اور تشکیل کے لئے جو مدت درکار ہے وہ ہمیں میسر نہیں اس لئے ہم بلوچستان الائنس کے نام سے ایک وسیع اتحاد قائم کر رہے ہیں جو آنے والے انتخابات میں حصہ لے گی۔ انتخابات کے بعد اسی اتحاد کو سیاسی پارٹی کی شکل دی جا سکتی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ مسئلہ کا حل ریاست پاکستان اور بلوچوں کے درمیان با مقصد، پر و قار اور پر اعتماد بات چیت میں مضمر ہے۔ اس لیے بلوچستان نیشنل الائنس ریاست پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ بلوچ عمائدین، اکابرین اور بلوچ سرمچاروں سے گفت و شنید کی ابتدا کرے تا کہ بلوچ قومی تشخص کی بقا اور با ہمی سلامتی پر مبنی امن کی راہیں نکالی جاسکیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ سمجھتے ہیں کہ بلوچ ریاست کا پاکستان سے الحاق کے وقت جو شر انکا طے ہوئے اور خان بلوچ کے ساتھ جو معاہدات ہوئے ریاست پاکستان نے ان پر عمل نہیں کیا۔ بلوچوں پر فوج کشی کی گئی۔ بلوچستان کے وسائل کو لوٹا گیا، بلوچی زبان کو ذریعہ تعلیم نہیں بنایا اور نہ ہی بلوچی کو بلوچستان کی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ سیاسی طور پر بلوچ کو مفلوج رکھنے کے لیے پختون علاقوں کا ایک بڑا حصہ بلوچوں کی مرضی اور منشا کے خلاف بلوچستان کے جغرافیائی حدود میں شامل کیے رکھا۔ پاکستان نے بلوچوں کی قومی تشخص کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے اور بلوچ کو اپنی ہی سر زمین میں اقلیت میں بدلنے کے لیے لاکھوں افغان مہاجرین کو بلوچستان میں آباد کرایا گیا اور گذشتہ 76 سالوں میں تین سال کی قلیل مدت کے علاوہ ریاست نے اپنے گماشتوں کے ذریعے بلوچوں پر حکومت کی۔

دشتی نے کہاکہ بلوچستان نیشنل الائنس پاکستان کے آئین اور قانون کے دائرے میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں یقین رکھتا ہے۔ ہم بلوچوں کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی محکومی کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں سےگفت و شنید کے حامی ہیں۔

مزید کہا کہ بلوچستان نیشنل الائنس یہ گردانتی ہے کہ بلوچستان میں گشت وخون کا یہ سلسلہ بند ہو اور بلوچوں کو اپنی سرزمین میں باعزت اور پر امن زندگی گزارنے کا آئینی ، قانونی اور انسانی حقوق حاصل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ با مقصد مذاکرات کی راہ اس وقت ہموار ہو سکتی ہے جب بلوچستان میں غیر نمائندہ قوتوں کو بلوچستان پر حکمرانی سے روکا جائے۔ بلوچوں کو آپس میں لڑانے اور قبائل کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند ہو ۔ انتخابات میں سرکاری مداخلت کا خاتمہ ہو اور بلوچوں کو اپنے نمائندے چننے کا سیاسی اور آئینی اختیار حاصل ہو اور بلوچ ساحل و وسائل پر بلوچ اختیار اور بلوچستان پر بلوچوں کا حق حکمرانی مسلم ہو۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل الائنس ریاست پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ تمام بلوچ علاقے جو سندھ اور پنجاب کے صوبائی حدود میں شامل ہیں وہ بلوچستان میں شامل کیے جائیں جبکہ بلوچستان میں تمام پختون علاقے بلوچستان سے الگ کیے جائیں۔ بلوچستان نیشنل الائنس ان بلوچوں کی جو اس جنگ کے نتیجے میں بیرون ملک در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، باوقار، باحفاظت اور باعزت وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے کا مطالبہ کرتی ہے

انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن کے دوران ہزاروں خاندان اپنے اپنے علاقوں سے نکلنے پر مجبور ہوئے ہیںبلوچستان نیشنل الائنس ایسے خاندانوں کی دوبارہ اپنے اپنے علاقوں اور گھروں میں آباد کرانے پر زور دیتی ہے، اور جو لوگ فوج سے مقابلے میں جان بحق ہوئے ہیں بلوچستان نیشنل الائنس ان کے خاندانوں کو تحفظ دینے اور انہیں آباد کاری کے لیے مناسب مدد فراہم کرنے پر زور دیتی ہے۔

انکا کہنا تھاکہ ہزاروں بلوچ بغیر مقدمہ چلانے سرکاری اداروں کی تحویل میں ہیں۔ ہم ایسے افراد کی غیر تمام جتھوں کو ختم کرنے اور ان کے کارندوں کو ان کے کئے کی سزا دینے پر زور دیتی ہے۔ بلوچستان نیشنل الائنس پاکستان کے تمام اقوام کی زبانوں کو پاکستان کی قومی زبانیں قرار دیتی ہے اور ان کی ترقی و ترویج پر یقین رکھتی ہے۔ بی این اے بلوچی کو بلوچستان کی سرکاری زبان قرار دینے اور اسے ذریعہ تعلیم بنانے کا مطالبہ کرتی ہے اور بلوچی زبان و ادب سے وابستہ تمام اداروں اور اکیڈیمیز کو سرکاری مالی معاونت فراہم کرنے پر زور دیتی ہے۔