مستونگ میں وسیع پیمانے کا فوجی آپریشن 40 سے زائد افراد گرفتار

441

آپریشن میں ایف سی، پولیس، لیویز فورس اور سی ٹی ڈی شامل ہیں

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی تازہ اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے ضلع مستونگ کے مختلف نواحی علاقوں میں ایک وسیع پیمانے کا فوجی آپریشن جاری ہے۔ آج سوموار کی صبح 8 بجے شروع ہونے والی فوجی آپریشن میں فرنٹیئر کور، سی ٹی ڈی، پولیس اور لیویز فورس کے چار سو سے زائد اہلکار شریک ہیں۔ جنہیں ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی حاصل ہے۔

تفصیلات کے مطابق آپریشن کے دوران فورسز نے ضلع مستونگ کے مختلف علاقوں کلی تیری، کلی کھنڈاواہ، کوشکک، نوزہ، شیرناپ، کلی سفید بلندی، درینگڑ اور صدیق آباد کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ اس دوران گھر گھر تلاشی لی جارہی ہے۔

علاقائی ذرائع کے مطابق آپریشن کے دوران فورسز چادر و چاردیواری کے بے حرمتی کررہے ہیں، خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور فورسز پر گھروں سے قیمتی سامان لوٹ کر فوجی گاڑیوں میں لادنے کا الزام لگایا جارہا ہے۔

ابتک کی اطلاعات کے مطابق دوران آپریشن فورسز 40 سے زائد افراد گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیئے جاچکے ہیں۔

گرفتار افراد میں سے ابتک علی احمد بنگلزئی کی شناخت ہوئی ہے، جو پبلک ہیلتھ میں ایک سرکاری ملازم ہیں۔ یاد رہے نو سال قبل 2011 میں انکے بھائی طارق بلوچ کو گرفتار کرکے لاپتہ رکھا گیا تھا، بعد ازاں انکی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش مزید تین بلوچ نوجوانوں کے ہمراہ برآمد ہوئی تھی۔

دریں اثناء آج بلوچستان کے ضلع آواران کے تحصیل جھاؤ کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن جاری ہے، ابتک کی تفصیلات کے مطابق آج صبح فورسز نے جھاؤ کے علاقے ملاگزی اور پیرجان گوٹھ کو محاصرے میں لےکر وہاں موجود تمام مرد حضرات کو حراست میں لے کر قریبی فوجی کیمپ منتقل کردیا ہے۔

یاد رہے بلوچستان میں گذشتہ طویل عرصے سے فوجی آپریشنوں کا سلسلہ جاری ہے، فوجی ذرائع ان آپریشنوں کو خفیہ معلومات پر کیئے گئے ٹارگٹڈ آپریشن قرار دیتی رہی ہے، جبکہ بلوچ قوم پرستوں اور انسانی حقوق کے تنظیموں کا الزام ہے کہ ان آپریشنوں میں زیادہ تر عام بلوچ آبادیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور لوگوں کو گرفتار کرکے لاپتہ رکھا جاتا ہے اور فورسز پر یہ بھی الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اس دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور مبینہ جعلی مقابلوں میں عام شہریوں خاص طور پر سیاسی کارکنوں کو قتل کیا جاتا ہے۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے متحرک انسانی حقوق کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق ابتک بلوچستان سے کم از چالیس ہزار بلوچ جبری طور پر لاپتہ ہیں۔ جنہیں زیادہ تر اسی طرز کے آپریشنوں میں گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ رکھا گیا ہے۔