کالونائزیشن اور بلوچ معاشرہ ۔ واھگ بزدار

636

کالونائزیشن اور بلوچ معاشرہ

تحریر۔ واھگ بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

کالونائزیشن سے مراد کسی قوم یا ملک پر قبضہ کرنے کے بعد مختلف سیاسی اور سماجی حربوں کو استعمال میں لا کر اس کی تہذیب، ثقافت اور نفسیات کو مسخ کرکے نظام زندگی میں تبدیلی برپاکرکے اپاہج بنا دیناہے۔ کالونیل پالیسیوں کو عملی بنیادوں پر بروئے کار لاکر قوموں کے سماجی، ثقافتی اور تاریخی پس منظر کو مفلوج بنانے کا بنیادی محرک قبضہ گیریت کو دوام بخشنے اور کالونیلزم کے خلاف ممکنہ مزاحمت کو دور کرنا ہوتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ایسی اقوام جو کسی بھی دور میں قبضہ گیر کے زیر تسلط رہی ہیں، قبضہ گیریت کے دوران بہت سے سماجی، سیاسی، معاشی، مذہبی اور ثقافتی تبدیلیاں اِن اقوام کا مقدر بنی ہیں۔ قبضہ گیریت چاہے کسی بھی شکل میں ہو اپنے کالونیل پالیسیوں سے کسی بھی صورت دستبردار نہیں ہوتا اور آج تک جتنے بھی اقوام کالونائزڈ ہوئے ہیں اُن پر مسلط کی گئی پالیسیوں نے ایسے اقوام کو کچھ اس طرح مسخ کر دیا کہ اقوام خود اپنے وجود کو ماننے سے انکاری رہے۔ قبضہ گیر کالونیل پالیسیوں کو بروئے کار لانے کیلئے ہر وہ طریقہ کار استعمال کر سکتا ہے جس سے وہ کسی نہ کسی صورت مستفید ہو سکے یہی وجہ ہے قبضہ گیر طاقتیں ایسے پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتے اور پرتشدد کاروائیوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔

بلوچ قوم کا شمار تاریخ کے قدیم ترین اقوام میں کیا جاتا ہے او ر مہرگڑھ جیسا قدیم تاریخی ورثا اِس بات کا واضح دلیل ہے۔ نو ہزار سال پرانی مہر گڑھ تہذیب کے وارث بلوچ قوم ہمیشہ سے ہی کسی نہ کسی صورت میں قبضہ گیروں کے زیرِ تسلط رہا ہے۔ کئی قبضہ گیروں اور اُن کی پالیسیوں کو جھیلنے والی سرزمینءِ بلوچستان کے باسی بلوچ قوم آج بھی عہدی روایت کا پاسداری کرتا ہے۔ بلوچستان پر اپنی تسلط کو جمانے کے لیے ہر اُس پالیسی کو بروئے کار لایا گیا جس کا عملی مظاہرہ آج تک جاری ہے۔

بلوچستان پر قبضہ گیروں کی تسلط کے اِس رجحان اور ہزاروں سالوں تک قبضہ گیروں کیخلاف بلوچ زادوں کا سینہ سپر ہونے کا بنیادی وجہ بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت ہے۔ بلوچستان جو کے دنیا کے ایک اہم جیوگرافیے میں اپنی وجود رکھتی ہے اور اس کی جیو گرافیکل اہمیت سے دنیا کی کوئی طاقت انکار نہیں کرتی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے بہت سے طاقتور ممالک یا قوموں نے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی اور کر رہی ہیں، ان میں سے ایک برطانیہ ہے جس نے اٹھارہویں صدی میں بلوچستان پر قبضہ کیا۔ بلوچ فرزندوں نے کبھی بھی کسی قبضہ گیر کی غلامی قبول نہیں کی اور ہمیشہ اپنی سرزمین کی حفاظت کلئے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور دشمن کو بلوچستان بدر کرنے پر مجبور کیا۔

27مارچ 1948 کو بلوچستان پر پاکستان نے قبضہ کیا، بلوچ قوم نے شروع دن سے لیکر آج تک اس قبضہ کو تسلیم نہیں کیا اور اس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا، جو جنگ آج بھی بلوچ سرزمین پر جاری ہے۔ پاکستان نے دیگر روایتی قبضہ گیروں کی طرح بلوچ قوم پر اپنی تمام کالونیل پالیسیوں کو آزمائے اور بلوچوں کو زیر تسلط رکھ کر قبضہ گیریت کو دوام بخشا۔ بلوچ سرزمین کی استحصال اور بلوچ قوم کیجانب سے مزاحمتی تحاریک کو کُچلنے کیلیے تشدد اور طاقت کا استعال کیا گیا۔

بلوچ قوم پاکستان جیسے قبضہ گیر کیخلاف شروع دن سے ہی مزاحمت جاری رکھے ہوئی ہے۔ پاکستان نے اسی مزاحمتی ابھار کیخلاف تشدد اور طاقت کے استعمال کے ساتھ بلوچ سماج کو سماجی، معاشی،سیاسی،مہذبی اور ثقافتی طور پر مفلوج بنانے کی کوشش کی اورکوششوں کا یہ تسلسل آج تک جاری ہے۔

اسی اثناء میں سینکڑوں کالونیل پالیسیاں ترتیب دی کر بلوچ قوم پر اپنی قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کے لیے کئی حربے آزمائے۔ چند ایسی پالیسیوں کا تفصیلی جائزہ درج ذیل دی گئی ہیں۔

جغرافیائی تبدیلیاں
برٹش نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کے پالیسی کے تحت بلوچ سرزمین کو بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے بلوچ قوم کو زمینی حوالے سے تقسیم کردیا، جس کا مقصد بلوچ قوم کے یکمشت طاقت کو کمزور کرکے بلوچ قوم کا استحصال کرنا تھا۔ اس طرح برٹش نے بلوچستان کی سرزمین کو افغانستان،ایران، اور پاکستان میں ڈال دیا۔

جس کے بعد پاکستان نے برٹش حکومت کی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ قوم کو تقسیم در تقسیم کرتا رہا اور بلوچ علاقوں کو سندھ،سرخد اور پنجاب میں تقسیم کر کے بلوچوں کا خود سے سیاسی اور سماجی روابط کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ جس میں کافی حد تک قبضہ گیر کامیاب ہوا اور آج اسی تقسیم کی بدولت بلوچ علاقوں میں بلوچ اپنے تاریخ کو آہستہ آہستہ کھو رہے ہیں۔

سرداری نظام کا قیام
افغانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد برطانوں سامراج نے ریاستءِ قلات پر یلغار اور مطالبہ کیا کہ بلوچ بغیر کسی مزاحمت کے برطانوی راج کو قبول کریں۔ بلوچوں کی تاریخ اِس بات کا گواہ ہے کہ بلوچوں نے کبھی کسی قبضہ گیر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا جبکہ وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ اِسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خان آف قلات میر محراب خان 13 نومبر 1839 کو تین سو ساتھیوں سمیت شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ بلوچ قوم نے برطانوی فوج کے ساتھ جنگ کوجاری رکھا اس دوران برٹش فوج نے بہت سے بلوچ حقیقی سرداروں سے برٹش کے ساتھ دینے کا کہا لیکن بلوچ قوم کے ان عظیم ہستیوں نے غلامی پر شہادت کو ترجیح دی۔ اس دوران برٹش نے ضمیر فروش لوگوں کو خرید کر بلوچ قوم پر مسلط کر دیا اور ان سرداروں کے ہاتھوں بلوچ قوم کا استحصال کیا جس کو بلوچ قوم سنڈیمن سرداری نظام سے منسلک کرتی ہے اور ان سرداروں کو بھی بلوچ قوم کے حقیقی فرزندوں نے ماننے سے انکار کیا۔

بارڈر ملٹری پولیس کا قیام
سنڈیمن نے سرداری نظام کے قیام کے بعد ڈیرہ غازی خان میں سب سے پہلے بارڈر ملٹری پولیس کی بنیاد رکھی، جس کا کنٹرول اس علاقے کے ضمیر فروشوں سرداروں کو دیا گیا اگر مقامی لوگ ان باتوں کو ماننے سے انکار کرتے تو ان کو برٹش کے جیل اور چوکیوں میں بند کر دیا جاتا اور ان سے غیر انسانی سلوک کیا۔بارڈر ملٹری فورس بنانے کا مقصد علاقے میں اپنا کنٹرول رکھنا اور بلوچ کے ہاتھوں بلوچ کا استحصال کرنا تھا جس نے کافی حد تک بلوچ معیار کو متاثر کیا۔

ہجرت
جب سے بلوچستان میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک آزادی شروع ہوئی ریاست پاکستان کے طرف سے بلوچوں پر بہت ظلم ڈھایا گیا۔ بلوچ قوم نے اپنے آپ کو اپنی سرزمین پر محفوظ نہیں پایا اور بہت سے لوگوں نے وقتی طور پر ہجرت کی جس کا بلوچ قومی نفسیات پر اثر پڑا کیونکہ ظاہر ہے کہ جب آپ کسی غیر کے علاقے میں جاتے ہے آپ کو اس کی سماج کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے۔

قبیلے کے نام پر تقسیم عمل
جب برٹش بلوچستان میں داخل ہوا تو اس نے بلوچ قوم کو نہایت ہی متحد پایا تو بلوچوں کے اِس طاقت کو تقسیم کرنے کے لیے برٹش نے براہوی اور بلوچ کو الگ الگ قوم پیش کیا تاکہ ان کو تقسیم کر کے ایک دوسرے کے خلاف لڑایا جائے اور ہم ان کی اس کمزوریوں سے فوائد اٹھا کر ان کا استحصال کریں گے، واجہ فاروق بلوچ اپنے کتاب بلوچ اور ان کا وطن میں لکھتے ہیں کہ قلات پر 1610سے لے کر 1948 تک قمبرانی اور میروانیوں کی حکومت رہی جس کی مادری زبان براہوئی تھی لیکن آج تک انہوں نے اپنے آپ کو براہوی قوم نہیں کہا کتاب میں واجہ فاروق صاحب مزید لکھتے ہے کہ ان کے قبر کے تختوں پر آج بھی بلوچ کا لفظ درج ہے جو سراسر اس بیانیہ کو رد کر دیتا ہے۔

لیکن پاکستان سرکار جو بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے ہواس باختہ ہو گیا اس نے مزید برٹش کے اس عمل کو دوام بخشنے کے لئے آجکل براہوئی اور بلوچ کے تقسیم کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کا واضح اشارہ بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس گھناؤنے عمل کی قیادت آرمی کے لوگ کر رہے ہیں جو مقامی سطح پر لوگوں کو فنڈز دے کر گمراہ کر رہے ہیں۔

زبانوں کے نام پر تقسیم
ریاست کی طرف سے بلوچ قوم کو مزید تقسیم کرنے کے لئے زبانوں کا سہارا لیا گیا، جس میں پاکستانی فوج کے دانشوروں نے بڑا اہم کردار ادا کیا بقول ڈاکٹر شاہ محمد مری بلوچ قوم 8 سے زائد زبانوں میں بات کرتی ہے جس میں بلوچی، برہوائی، کھترانی، سرائیکی، لاسی، سندھی وغیرہ شامل ہیں، اگر وہاں پر یہ لوگ بلوچ قوم کی بات کریں تو کہتے ہے آپ تو کتھرانی ہو آپ کا بلوچوں سے کیا کام، اگر کوئی سرائیکی زبان کے بولنے والے بلوچ قوم کے لئے آواز اٹھاتا ہے تو ان سے کہا جاتاہے کہ آپ کو الگ قوم ہو بلوچ قوم کے ساتھ آپ کا کیا لینا ہے۔

مذہب کے اثرات
بلوچ قوم جس کی ہزاروں سالوں کی ایک تہذیب ہے جس کے پاس ایک وسیع پیمانے پر زبانی صورت میں لٹریچر (oral literature) موجود ہے لیکن اسلامک کالونیزاشن نے بلوچ معاشرے پر بہت ہی اثرات ڈالے وہ بلوچ جن کے اپنے نام ہوتے تھے جن کی اپنی قومی متھالوجی ہے جن کے پاس ہزاروں سال ایک اپنے لج و میار ہے جن کے پاس فیصلے کرنے کے بلوچی قانون موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اسلام کے نام پر سادہ دل بلوچوں کو ورغلایا گیا ان کو ان کی تہذیب سے دور کرنے کی کوشش کی گی اور کی جاری ہے۔ بلوچ قوم جس کے لئے مذہب کی کوئی بندش یا پابندی نہ تھی آج پاکستانی اسلام نے ان کو ذکری،نمازی،شیغہ،سنی اور قادیانی کے نام پر تقسیم کیا گیا۔

ایک دن تربت مارکیٹ جانا ہوا تو میں نے ایک بلوچ سے پوچھا کہ یار واجہ چاکر کا دوکان کہا ہے تو اُس نے جواب دیا کہ۔۔۔۔۔ اس کافر کا دوکان وہاں ہے میں نے پوچھا کہ یہ کافر کیا ہے تو اس نے جواب دیا وہ ذکری ہیں اور کافر ہے۔

مکران کے علاقے میں ایک گھر میں اگر ایک بھائی ذکری ہے تو دوسرا نمازی لیکن جنگ آزادی سے پہلے بھی یہ چیز وجود رکھتی تھی لیکن اس دوران کافر اور مسلمان والا بات نہیں ہواکرتا تھا، صرف بلوچیت ہی سب کچھ تھا لیکن جونہی بلوچ قومی آزادی کی تحریک نے زور پکڑی سرکار نے اپنے اسلام یعنی پاکستانی آرمی کے اسلام نے بلوچوں کو تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔

پاکستانی تعلیم کے اثرات
شہید واجہ صباء دشتیاری صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستانی تعلیم نظام انسان کو نامرد بناتی ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر کے ایک مزدور تیار کرتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو صباء دشتیاری صاحب کی ان باتوں میں صد فیصد سچائی موجود ہے۔۔۔” پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بلوچوں کی ذہن کو مکمل طور پر کرپٹ کر دیا گیا پاکستانی تعلیمی نظام نے بلوچ قوم کی ذہنیت کو پاکستانی ذہنیت میں تبدیل کر دیا، آج کا بلوچ اپنی تاریخ اور سیاسیات سے مکمل طور پر ناواقف ہے بس چند ٹکوں کے پیچھے اپنی ضمیر کا سودا کر کے پاکستانی غلامی کو قبول کر لیا اور سی ایس ایس اور پی سی ایس ان کے دکھ کا مداوا کر رہی ہے جو سراسر پاکستانی تعلیم کا نتیجہ ہے”۔

جسمانی اور ذہنی بیماریاں
پاکستان کے طرف سے جب 1998 کو بلوچستان کے دل بند راسکوہ کے مقام پر ایٹمی تجربات کیے گئے اس دن سے اس کے اثرات نسلوں تک چل رہی ہے جسمانی حوالے سے مکمل اپاہج نظر آتے ہے وہ مال ووت بھی بیماریوں کا شکار ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے علاقوں میں یورینئم کے مواد کو سر عام پھینک دیا جاتاہے تاکہ بلوچ اپنی موت آپ مر جائے اور ہم ان کی زمین پر قبضہ کر سکیں۔آج پورے بلوچ سرزمین پر بلوچ مختلف بیماریوں کا شکار ہیں جس میں کینسر، یرقان،ایڈز اور دوسرے انتہائی خطرناک بیماریاں موجود ہیں۔ گُزشتہ چند سالوں سے بلوچ علاقوں میں کچھ عجیب سی بیماریوں نے سر اٹھایا ہے جس کا شناخت نہیں ہو پا رہا ہے۔

کوہلو کے علاقے میں ایک دوست سکول پڑھانے گیا تھا اور ایک ہی ہفتے میں اس کو عجیب بیماری ہوئی اور وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات ہوئے ہیں لیکن ہم نے اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی بقول جنرل اسلم بلوچ۔۔ “ہمارے علاقوں میں آجکل بلوچ زیادہ تر بیماریوں سے مر رہے ہیں یہ بھی ہمارے شہید ہیں اور اس کا قصور وار ہم ریاست پاکستان کو ٹہراتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس علاقے میں بہت سی کیمائی ہتھیار استعمال کر کے لوگوں کی نسل کشی کو آسان سمجھا.”

پاکستانی فوج کے مظالم نے بلوچوں کو نفسیاتی طور پر بیمار کرنے میں ء بھی کو کسر نہیں چھوڑی ایک جگہ سے دوسرے جگہ جانا ہو تو سو جگہوں پر ایف سی اور آرمی والوں کی گالیوں، روک ٹوک اور بدتمیزی نے لوگوں کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ آئے روز لوگوں کو لاپتہ کرنا اور انکی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ ٹارچر سیلوں میں اذیت ناک اذیتیں دینا، ماوں اور بہنوں کو سرعام رسوا کرکے ان کے سامنے زیادتی کا نشانہ بننے جیسے عمل نے بلوچ قومی نفسیات کو بہت بڑا دھچکا لگایا ہے جس کی وجہ سے بہت سے بلوچ علاقوں میں نفسیاتی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

منشیات کا فروغ
بلوچ قوم کی نسل کشی اور بلوچ قوم کو جنگ آزادی کی تحریک سے دور کرنے کےلیے منشیات کو عام لوگوں تک پہنچایا جا رہا ہے تاکہ لوگ اپنی زندگیوں کو نشہ میں گذار کر سماج کے مسائل سے دور رکھ سکیں۔ اگر ایک بندہ منشیات کی لت سے آزاد ہوگا تو وہ اپنی قوم، وطن اور اس کے لوگوں کے لئے سوچے گا.

آپ اگر تمام بلوچ علاقوں کا سفر کریں چاہے وہ اس وقت بلوچستان ، سندھ، پنجاب میں جہاں بھی ہو وہاں آپ کو منشیات کا استعمال بہت نظر آئے گا کیونکہ قبضہ گیر منشیات کو بطور ہتھیار استعمال کر کے نسل کشی کررہی ہے۔.

سماجی رشتوں میں دوری
بقول واجہ فینن کے اگر کوئی والدین اپنے بچوں اور رشتوں داروں سے اگر عجیب وغریب طریقے سے پیش آتا ہے تو اس کا یہ عمل قبضہ گیر کے پالسیوں کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ قبضہ گیر کی طرف سے جو نفسیات بنائی گئی ہے، وہ اس دوران اس پر لاشعوری طور پر عمل کر رہا ہوتا ہے۔

اگر آج بلوچ سماج کے سماجی اور خونی رشتوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایک عجیب قسم کی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے آج کے بلوچ سماج میں رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کیونکہ ریاست نے اپنے اداروں کے ذریعہ گھر گھر اس پالیسی کو پہنچا کر قبضہ گیر کی ستون کو مظبوط کرنے کی کوشش کی اور کر رہی ہے۔

ایک فاتحہ کے سلسلے میں کوہ سلیمان جانا ہوا اس دوران مجھے ایک عجیب سی کہانی دیکھنے کو ملی کہ دو بھائی جن کے والد کا فاتحہ خوانی ہے، وہ آپس میں لڑ رہے تھے ایک کہہ رہا تھا، والد کے جائیداد پر میرا حق زیادہ ہے تو دوسرا کہتا ہے میرا، نوبت گالی گلوچ تک جا پہنچی پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ دونوں بھائی اور ان کا پورا خاندان بہت ہی پڑھا لکھا ہے، تو میں نے اس روز سوچا کہ پاکستانی نفسیات نے کس حد تک بلوچ قومی نفسیات کو متاثر کر کے خونی رشتوں میں دوریاں پیدا کیا کہ ہمارے اٹھنے ،بھیٹنے ، چلنے پھرنے اور بولنے تک میں ہمارے رویوں کو تباہ کیا۔

آج گھر تمام خوانی اور سماجی رشتوں کو دیکھا جائے تو ان کے رویوں میں آپ کو بہت سی تبدیلیاں نظر آئیں گی، چاہے وہ باپ اور بیٹے کا رشتہ ہو یا ماں اور بیٹی کا ہو، اگر سماجی حوالے سے دیکھا جائے تو ہر وہ دوسرا شخص جو کبھی آپ کے لئے جان دینے کو تیار تھا آج مکمل آپ کو نقصان پہنچانے کی چکر میں ہے۔

آخر کیوں یہ سب چیزیں آہستہ آہستہ اپنے وجود کو کھوتی جارہی ہیں، تو اس کا جواب بالکل صاف و شفاف ہے وہ ہے غلامی جس نے اپنے جڑوں کو مضبوط کرکے ہمیں ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

وسائل کا استحصال
بقول واجہ گوگی یہ غلام قوم کی بے وقوفی ہے کہ وہ سوچتے ہے کہ کوئی غیر باہر سے آ کر آپ کو ترقی دے گی کیونکہ وہ تو اتنے دور سے آپ کا استحصال کرنے کو آیا ہے آپ کے وسائل کو لوٹنے کو آیا ہے اس کو ضرورت کس بات کی ہے کہ وہ آکر آپ کو ترقی دے۔

پاکستان نے بلوچستان پر اس لئے قبضہ کیا کہ وہ بلوچستان سے وسائل کو لوٹ کر اپنے خزانوں کو بھر سکے نہ کہ کسی پنجابی کو بلوچ کی محبت نے مجبور کیا کہ وہ اکر ہمیں ترقی دے بقول بابا خیر بخش مری پنجابی کو ضرورت کیا ہے کہ وہ اتنے دور سے اکر ہمیں ترقی دے ترقی کے نام پر بلوچ قوم کو بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بقول کارل مارکس (ڈیویلپمنٹ) خود استحصال کی نئی شکل ہے، جس کے نام پر لوگوں کو ورغلا کر ان کے استحصال کو مزید تیزی سے کیا جاسکتا ہے۔ آج بالکل اس طرح ڈیویلپمنٹ کے نام پر بلوچ قومی وسائل کو پاکستان تیزی سے لوٹ کر پنجاب لے کر جارہی ہے، جس کی واضح مثال سوئی سے نکلنے والی گیس یا ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے سے ڈھوڈک سے نکلنے والی گیس جو ان علاقوں کے لوگوں تک نہیں پہنچی جس زمین کے وہ خود وارث ہیں۔

دوسری طرف سونا، چاندی، ماربل، کرو مائیٹ، کوئلہ، تانبا، یورنیم اور تیاب پر ان کا قبضہ ہے وہ مکمل بلوچ وسائل کو لوٹ کر بنجر کرنا چاہتے ہیں۔

کوہلو کے علاقہ ہوسڑی میں جانا ہوا تو وہاں پر ایک مری بلوچ نے بتایا کہ یہ میرے پہاڑوں سے کوئلہ نکال کر لے جاتے ہیں اور مجھے ایک ٹن کا 1200 سو روپے دیتے ہیں لیکن اس کوئلے کی ٹن کا اگر انداز لگایا جائے تو وہ پنجاب میں لاکھوں کے حساب سے بکتی ہے۔

اس طرح جو باقی قدرتی وسائل ہیں، ان کو نیلام کرکے بلوچ گلزمین کے وسائل کا لوٹ و کھسوٹ جاری ہے۔

کچھ دونوں پہلے کوہ سلیمان کے علاقے میں ایک ٹھیکیدار کی زبانی معلوم ہوا یہاں پر ماربل کے جو پتھر ہیں، اس کی ایک ٹرک پر مالک کو 10،15 ہراز روپے دیا جاتاہے حالانکہ کہ اگر آپ کو اگر ماربل کے دوکانوں میں جائے تو وہاں پر ایک ٹیل کی قیمت ہزاروں میں ہوتی ہے۔

تیاب (دریا) کی کے مالک صاف پانی کے نہ ملنے کی وجہ سے کی بیماریوں کا شکار ہے جہاں پر مقامی آبادی کے لئے اچھا ہسپتال تک موجود نہیں لیکن وہاں پر پنجابی نے اپنے لئے بہت ہی عالیشان عمارت اور آرمی کے کیمپ بنا کر بلوچوں کو اپنے زمینوں سے بے دخل کیا اور ان کے زمین پر قبضہ کرکے بڑے بڑے ہوٹل بنائے جہاں پر ہوٹل کا مالک بلوچ اور مزدور وہاں کا مقامی بلوچ ہے۔

گوادر میں مقامی ماہی گیروں سے ملنے پر معلوم ہوا ان کو تیاب میں ایک خاص ایریا تک جانے کی اجازت ہے ان حدود کو اگر پار کیا جائے تو ہمیں دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ہمیں ماہی پکڑنے سے روک جاتا ہے۔

پدی زر اور دیمی زر کو پاکستانی آرمی نے مکمل اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے جہاں پر اپنے خاص لوگوں کے سوا کسی اور ماہیگیر کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ وہاں ماہی پکڑ کر منڈیوں میں بیچ سکے اس طرح کی صورتحال جیونی، پسنی، کلمت اور اورماڑہ میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔