سوہندہ کی باتیں – وش دل زہری

413

سوہندہ کی باتیں

تحریر: وش دل زہری

دی بلوچستان پوسٹ 

زہری ایک ایسا علاقہ ہے جس سے بلوچستان کی تاریخ کا بہت بڑا اور گہرا رشتہ ہے، بلوچ اور بلوچستان کے تاریخ میں تاریخِ زہری کو اگر شمار نہ کیا جائے تو بلوچستان کا تاریخ پھیکا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور اُس کی چاشنی زائل ہو جاتی ہے.

یہ وہ علاقہ ہے جس کے خوبصورتی میں ہزاروں راز چھپے ہوئے ہیں، تراسانی میں شہیدوں کی آشیانوں سے اُٹھتی ہوئی آزادی کی مہک سے لیکر دھیزیری کے سبزہ زاروں کی دلکش مناظر تک شہیدوں نے تاریخ کو وہ سنہری الفاظ مُہیا کی ہیں کہ اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو بلوچ تاریخ ان کا مقروض ٹہرنے لگتا ہے.

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا جہاں میں کہیں بھی بلوچ محکومیت کا کوئی بلوچ سیاسی رہنما تذکرہ کرتا ہے تو محراب خان کے جہدِ انقلاب کے بعد بزرگ اور دلیر گوریلا وطن دوست بابو نوروز خان کی کلیدی کردار کو اپنے گفتگو میں شامل کئے بغیر اُن کے سارے دلائل ادھورے رہ جاتے ہیں اور سفر خان، بھاول خان، جلال خان، بٹے خان اور اُن سارے شُہدا اور غازیوں کی جدوجہد کو دنیا کے سامنے رکھ کر بڑے فخر اور دلیل سے کہہ دیتا ہے کہ یہ جنگ بلوچ سے برٹش کا تھا اور بلوچستان کے آزادی کے بعد برٹش نے پاکستان کو اپنا کنزِ مخفی سامراج بنا کر یہاں سے چلا گیا.

مانتا ہوں اس نگری سے چنداں ہیرے وطن کے گود میں بہادر اور نڈر ماؤں نے بِنا کسی غرض و لالچ کے ڈال دیئے جنہوں نے پہلا قدم اُٹھایا، دوسرے پر کانٹے بچھے ہوئے تھے، لیکن انہوں نے پرواہ کیئے بغیر ان راہوں کو اپنا لیا اور اپنے لہو کو ناختم ہونے والے روشنی کیلئے چراغوں میں ڈال کر تاریکی میں ڈوبی ہوئی تاریخ کو ہمیشہ کیلئے روشنی کے نذر کر دیا. اور آج وہ تاریخ سے اور تاریخ اُن سے زندہ اور امر ہے.

آج کل موسم بہاراں ہے، درختوں میں جان سی آگئی ہے اور سبزی مائل رنگ اُن کے شاخوں میں نظر آنے لگے ہیں، پرندے اور شجر کا رشتہ پھر سے پُختہ ہونے لگا ہے، پنچھیوں نے اپنے نشیمن بنانے کا ہُنر دہرانا شروع کیا ہے اور ایک ایسی کیفیت بن چکی ہے جو اپنی طرف کھینچ کر لے آئے اور ہزاروں یادوں کی نگہبانی کرے، درختوں کے ٹہنیوں میں بیٹھے پرندوں کی نغمہ سرائی ایک پل کیلئے انسان کو اُس کے پریشان حال زندگی سے نکال کر اپنی طرف متوجہ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں، ایک ایسی بادِ صباء جو چھوکر گذرتا ہے تو توازن مضبوط ہونے لگتا ہے اور نہ جانے کیوں آج مجھے گھر سے باہر نکلنے کی ایک چاہت سی ہونے لگی یہ سارا منظر دیکھنے کے بعد موٹر سائیکل اُٹھا کر گھر سے سوہندہ کی جانب روانہ ہوا.

یہاں کے لوگ عجیب قسم کے خیالات کے مالک ہیں، جب بازار پہنچ کر ٹائم پاس کیلئے کچھ خُورد و نوش کے چیزیں ایک کیبن نما دوکان سے خرید کر سوہندہ کی طرف بڑھنے لگا تو لوگوں کو اپنے طرف دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے میرے موٹر سائیکل کے ہینڈل میں اٹکے ہوئے ٹائم پاس کیلئے لیئے سامانِ خُورد ونوش میں اُنہیں میرا خِرد نظر آرہا ہے، ایسے گھور گھور کر مجھے دیکھ رہے تھے جیسے میں شہنشاہ کے سلطنت میں بےمروت مجرم ٹہرا ہوں اور ابھی تک شاہ کے گرفت سے آزاد پھر رہا ہوں.

اور میں نے اپنے گزرے دنوں کی عکس کو دیکھنے کیلئے کچھ لڑکوں پر نظر ڈالا جو ایک مکینک شاپ کے آگے کھڑے آپس میں ہنسی مزاق کر رہے تھے، اور ایک پل کیلئے مجھے میرے وہ دن یاد آگئے، جب ہم بھی ایسے وقت گذار لیا کرتے تھے، لیکن اُن منچلے لڑکوں نے میری پُرانی حالت موٹر سائیکل کو دیکھتے ہی میرا مذاق اُڑانے لگے اور اپنے نئی ترقیوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے، اسی طرح میرا وہ خیال وہیں پر تھم گیا، جس میں ہمارے ماضی کے چند لمحات دکھائی دے رہے تھے اور پھر میں آگے روانہ ہوا. ایسے طعنے کسنے والے اور مزاق اُڑانے والے ہمیں اکثر راہوں پہ ملتے رہتے ہیں، کیونکہ ہم ان سے اور ان کی ماحول سے کچھ الگ تھلگ سے رہتے ہیں، تھوڑا خاموش اور خاموشی میں شعور کی صدائیں دیتے ہیں لیکن یہ صدائیں اس ماحول کو بہت کم سننے محسوس ہوتا ہے، ہم تو راہوں پر رواں لیکن سوچ و فکر کی دیوان کئی سال ماضی میں ڈھال دیئے ہوتے ہیں۔

ایسے ماحول اور ایسے کیفیت سے ہم مسکُراتے ہوئے پھسل کر آگے بڑھتے ہیں اور تھوڑی بہت ان کے ذہانت کا اندازہ کرکے پھر اپنے مقاصد کے دائرے میں پہنچ جاتے ہیں.

ہم چاکر اعظم کے اُس قول و فہم کو پُختہ کرنے کا عزم لیئے بھٹکے یا بلد راستوں پر پھر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی مل جائے ایک کٹورا پانی اپنی جگہ ایک بوند پانی اور شیرین زبان سے دو میٹھے الفاظ مہر و محبت سے ہمیں ادا کرے تاکہ ہم ہزار سال وفا کرنے کی اُن سے بلوچی قول کریں، یہاں تو ایک نئی رسم قائم ہے یہاں وفاؤں کو صلیب ہوتی ہے اور فریب ہر بار جیت لیتا ہے.

عصر کا وقت ہوا چاہتا ہے سورج افق پر اُترنے کی ضد میں ہے، ایک زردی سی مائل رنگ اُفق پر پھیل رہی ہے پرندیں جُھرمٹ کی شکل میں اُڑان بھر رہے ہیں میں خڑی کے راستے سوہندہ پہنچ گیا اور راستے میں مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہوگا اس راہ پر سے ایک سچا وطن زاد گزر رہا ہوگا، اُس نے یہ منظر دیکھ کر کیا سوچا ہوگا، کئی بار آیا ہوگا، بار بار آیا ہوگا، دوستوں کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اُس کو یہ منظر اسی طرح اُن سے تھوڑی دیر کیلئے الگ کردے گا جیسے آج مجھے ساری دنیا سے الگ کرکے کھینچ لایا ہے۔

اچانک میرے کانوں میں کچھ لوگوں کے باتیں کرنے کی آوازیں موٹر سائیکلوں کے آواز کے ساتھ گونجنے لگیں، مڑ کر دیکھا چند نوجوان سوہندہ سے دل بھر کر واپس بازار کی طرف ہو لئے تھے.

تھوڑی دیر بعد چاروں طرف سناٹا پھیل گیا، صرف بہتے پانی اور مینڈکوں کا شور تھا، جاکر ایک جگے پر بیٹھ کر آب جُو نُما سوہندہ میں بہتے پانی کی سرور بھری آواز کو سننے لگا، یہ چشموں کا بہتا ہوا پانی بھی خاموشی میں ایک الگ گُن گا رہے ہوتے ہیں جو برسوں لگے سینے میں زخم پر درمان محسوس ہونے لگتے ہیں۔

قدرتی ہوا اور کوہِ سوہندہ کے پرچھائی ایک ساتھ مجھ سے ٹکرا کر اپنے منزل کی طرف بڑھنے لگیں ایک پل کیلئے اُنہیں اپنی طرح پایا کہ وہ بھی ان راہوں پر کیسے کیسے لوگوں سے ٹکرا کر گذر جاتے ہیں اور ہنستے ہوئے اپنے منزل کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔

سوہندہ میرے لئے خاموش تھا، مگر تھوڑی دیر بعد میں اور آگے بڑھا ایک بڑے سی پتھر کے نیچے زیادہ پانی جمع تھا اور بہت ہی خاموش ساکن کھڑا نیلا دکھ رہا تھا، میں نے پتھر پر بیٹھ کر اُس بہتے ہوئے پانی کی طرف دھیان لگادیا، جو آکر اس نیلے رنگ پانی میں داخل ہو جاتا اور دوسرے جانب اُتنا ہی پانی خارج ہوکر ندی کی پار چلا جاتا، قدرت بھی کمال کرتا ہے ہر شے کو ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتا، مسلسل آگے بڑھنے کی عمل پیرا ہوتا ہے. پھر سوچا یہ پتھر پھر کیوں پانی کی طرح نہیں بہتے ایک جگہ رُکا ہوا کیوں ہے؟ میرا سوال میرے زہن میں ہی تھا کہ ایک پتھر پر نظر پڑا، جس پر موجودہ وقت کے تحریک کے وہ تین الفاظ لکھے ہوئے تھے، جس سے دشمن لرزاں ہیں اور خوف میں مبتلا ہے، ایسا لگا پتھر مجھ سے مخاطب ہے کہ پتھر کو خدا کے مسلسل رواں دواں انقلاب سے الگ نہ سمجھیں، ہم بھی بتدریج بہتے ہیں کچھ کہتے ہیں لیکن ہماری قدر اُن سے پوچھ لیتے جن کے سوچ و فکر آپ کو اس معاشرے سے کچھ مختلف رکھتا ہے، یہ آپ کی بد قسمتی ہے یا خوش قسمتی یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اب آپ لوگوں میں نہ رہے، لیکن وہ آپ کی طرح نہیں سوچتے اُنہیں ہر شے میں انقلاب دکھتا تھا، یہ جو چار الفاظ میرے سینے پہ لکھی گئی ہیں، اس کے مرہونِ منت آج آپ کے سوچ و فکر اور بھی مضبوط ہوگا اور آپ کے سنگت کا پیغام آپ میں پھر سے بہار کے پھولوں کی کلیاں بن کر نوجوانوں کیلئے خوشبو کی مہک بن کر پھیل جائےگا اور صحت مند ذہنوں کی نشو و نما کرےگا۔

یہ تین الفاظ شہید امتیاز نے اس پتھر پر لکھے تھے اور اس پتھر سے مجھے محسوس ہوا اور ان باتوں کا اندازہ ہوا کہ سُقراط پتھروں میں کیوں زیادہ وقت صرف کرتا تھا؟ یہ بھی مسلسل بہتے ہیں، انقلاب انقلاب کہتے ہیں لیکن ان کی قدر واقعی کہ ہم کیا جانیں، ہم دلوش تھوڑی ہیں، ہم سُقراط کے پیروکار تھوڑی ہیں، ہم تو گُنگ انقلاب منجمند اور مٹھی میں بند بس اپنے اندر شورِ آزادی کی صدائیں لیئے بیٹھے ہیں لیکن وہ فکر و جذبہ، وہ ولولہ ہم میں کہاں کہ پتھروں کے فلسفے کو بھی حقیقت میں ڈھال دیں اور نسلوں کیلئے پیغام چھوڑ دیں۔

اب ایسا محسوس ہونے لگا جیسے سوہندہ چاروں طرف سے مجھ پر ٹوٹ پڑا، باتوں کی بوچھاڑ کردی، بس وطن زادوں کی باتیں اور کچھ نہیں۔

تم کیوں آئے ہو یہاں؟ اس لئے کہ گھر کے شور سے تھوڑا بھاگ جاؤں، یہاں جاکر دلفریبی میں لمحہ گذاروں، کسی نازنین کے زلف میں خود کو قید کرلوں یا کسی یاد سے پردہ اُٹھا کر اُس میں گم ہو جاؤں اور شام ڈھل جائے تو پھر گھر کو لوٹ جاؤں۔

یہاں پر آئے ہو تو ہمیں بھی سُن لینا، روز صدائیں دیتا ہوں مجھے کوئی نہیں سُنتا، لوگوں نے مجھے لُطف کا ایک تفریح گاہ سمجھا ہے لیکن میں گلاب کے مانند کانٹوں میں چھپا ہوں. لوگ میرے حُسن کو لوٹ لیتے ہیں لیکن میری درد کو کبھی محسوس نہیں کرتے.

تم نے میرے سینے پر بہتے چشمے کے پانی کو گُن گاتے محسوس کیا لیکن اُس میں کچھ صدائیں ہیں، یہ پانی کسی کے محبوبہ کے پائیل کی جھنکار بن جاتی ہے، کسی کے ساغر میں اُنڈلتا ہوا شراب لگتا ہے، کچھ تو یہاں ایسے بھی ہوتے ہیں جو دھواں اُڑاتے ہیں، انہیں ہم سے غرض ہی نہیں ہوتا، ایسا لگا ایک آہ کے ساتھ آخر میں کہہ دیا کہ کچھ لوگ تو بدکرداری دامن میں باندھ کر بھی یہاں آتے جاتے ہیں۔

میں مسلسل سُن رہا تھا، میں جس پتھر پر ٹیک لگائے بیٹھا تھا ایسا لگا وہ اب مجھ پر ٹیک لگائے بیٹھا ہے، سوہندہ میں موجود ذرہ ذرہ مجھے گھیر چکے تھے۔

جہاں آپ ٹیک لگائے بیٹھے ہو کئی برس پہلے اسی جگہ پر ایک نوجوان ہاتھ میں بندوق لیئے کھڑا تھا، دوستوں کے ساتھ آیا تھا۔ اُس کے افکار سے پتا چلتا تھا کہ وہ مجھ سوہندہ سمیت پورے بلوچستان کو مقروض کردےگا، وہ سب سے مختلف رہتا تھا، یہاں آتے ہی وہ اپنے دوستوں کو لیکچریں سناتا تھا، اُنہیں سگریٹ نوشی سے سخت منع کرتا تھا، غلط راہوں کو نہ چُننے کی تلقین کرتا تھا، وہ ہاتھ اُٹھاتے ہوئے اپنے دوستوں کو میرے چوٹیوں کی طرف دیکھنے کا کہتا اور ایک مثال بناکر مجھے اور اونچا کرتا اپنے دوستوں میں مجھے قابل اعزاز بنا دیتا. وہ یہاں آتے جاتے سب سے مختلف تھا، اس کے سینے کا درد آج میرے سینے پہ مسلسل بہہ رہا ہے لیکن یہ معاشرہ یہ سماج آج بھی ویسا ہی ہے، جیسے برسوں پہلے تھا، یہ درد دلوش کے سینے میں تھا۔ اسے کسی نے نہیں سمجھا، آج میرے سینے میں ہے، تو لوگ مجھے نہیں سمجھتے نہ مجھے سُنتے ہیں بلکہ مزید اس درد میں شدت لاتے ہیں، لیکن میں آج بھی وہ چوٹی ہوں جسے دلوش نے بُلند و اونچائی کا نام دیا تھا میں جانتا ہوں میں کوہِ ٹاکاری کے دامن میں محض ایک ذرّہ ہوں لیکن امتیاز جیسا وطن زاد کوئی بن کر ابھرے میں اس کا سنگر ضرور ہوں۔

ایک بار امتیاز یہاں اپنے اسکول دوستوں اور کلاس فیلوز کے ساتھ آیا تھا لیکن اُس وقت اُس کے ہاتھ میں بندوق نہیں تھا بلکہ اس کے زہن میں ریاضی اور معاشرتی علوم کے سوالات گردش کرتے تھے لیکن وہ وقت اُس کے سیکھنے کا تھا، مجھے اُس کے آنکھوں میں ایک اُمید ایک انقلاب نظر آنے لگا۔ تب میں پھر سے زندہ ہو گیا فخر سے سینہ تان کر کھڑا ہوا کہ نوروز خان نے میرے سینے سے جو پانی پیا تھا وہ پانی نہیں مادرِ زمین کے چھاتی کا دودھ تھا، جس کا آدھا قرض اُس نے خود ادا کیا اور آنے والے نسلوں پر آدھا قرض چھوڑ کر ماں اور بیٹے کا حق ادا کر دیا، اور اُسی دن سے امتیاز میں مجھے وہ حق ادا کرنے کی صلاحیت اور مخلصی نظر آیا، جس کی بدولت آج میں وطن کا درد سینے میں لئے نوجوانوں سے اپنے وقت گفت و شنید میں گذار رہا ہوں اور بولان و میر گھٹ کو کہتا رہتا ہوں کہ تم صدا سنگر رہنا میرے گود میں ہزاروں امتیاز اور باقی ہیں.

آپ کو معلوم ہے، یہاں چند بندوق بردار آتے رہتے ہیں، سردار و نواب کا گُن گاتے رہتے ہیں، یہ تین الفاظ جو تجھے آج نڈھال کررہے ہیں، یہ اُن کو اچھے نہیں لگتے، وہ نا زیبا الفاظ ان پر کستے ہیں، مجھے ایسا لگتا ہے امتیاز آج بھی ان کے فرسودہ سوچ کے خلاف برسرِ پیکار ہے.

یہ اتنے غیر مہذب ہیں کہ یہ تین الفاظ دیکھ کر گالیاں بھی کستے ہیں لیکن میں ایک بےبس ماں کی طرح خاموش بیٹھ کر دیکھتی رہتی ہوں، تب مجھے امتیاز کی وہ باتیں یاد آتیں ہیں جب اُسے کوئی دوست میر یا سردار کہتا تو وہ انتہائی پیار بھرے لہجے میں کہتا سنگت مجھے سردار و میر کہہ کر گالی نہ دو میں بس ایک عام بلوچ ہوں بالکل آپ لوگوں کے جیسا۔

بتاؤ وش دل اب بھی امتیاز کے افکار لئے مادر وطن کے اس چھوٹی سی دامن میں نوجوان موجود ہیں؟

سوہندہ کے اس سوال نے مجھے لاجواب کردیا اور میں دل و دماغ میں یہ کہہ کر وہاں سے اُٹھ کر نم آنکھوں کے ساتھ گھر کی جانب روانہ ہوا کہ پُرامید رہنا شاید کسی بھی وقت تیرے چھاتی سے بہتے پانی کا اثر کسی باغیرت بیٹے کے ضمیر پر اثر انداز ہو اور وہ آپ کا لخت جگر بیٹا میر گھٹ کے اہمیت کو سمجھ کر بولان محاز پر پہنچ جائے اور انقلابی مہک کو اس چھوٹی سی دامن پر بھیج دے جس طرح امتیاز نے بھیجا تھا حتیٰ کہ وہ مہک دلجان و بارگ کو یہاں تک لے آیا تھا لیکن ان ہواؤں نے اُن کا قدر نہیں سمجھا.

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔