لاپتہ افراد کو مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں بازیاب کیا جارہا ہے- ماما قدیر بلوچ

103

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں بلوچستان سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5084 دن مکمل ہوگئے ہیں-

بلوچ اسٹوڈینٹس ایکشن کمیٹی کے نو منتخب چیئرمین و کابینہ اور جبری لاپتہ راشد حسین بلوچ کے والدہ کی کیمپ آمد

کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی کارکنان، طلبہ، اساتذہ، بزرگ، بچے، خواتین سمیت ہر وہ طبقہ فکر جو بلوچ تحریک کا حامی ہے انکا لاپتہ ہونا کوئی انوکھی بات تصور نہیں کی جاتی کیونکہ گذشتہ بیس سالوں کے دوران جبری اغوا کی وارداتیں اتنی تسلسل اور تیزی کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں کہ اب تک ساٹھ ہزار سے زاہد افراد کی رپورٹ مرتب کی گئی ہے اور بلوچستان کا شاید کوئی گوشہ نہ بچا ہو جہاں کسی بلوچ فرزند کو جبری اغوا نہ کیا گیا ہو-

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا جبری لاپتہ افراد کے لواحقین گذشتہ کئی سالوں سے کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھوک ہڑتامی کیمپ لگاتے رہے ہیں لیکن نتائج بازیابی سے ہٹ کر مسخ شدہ لاشوں کی انبار ہے دشمن نے جبری لاپتہ افراد کی حراستی شہادت کا باقاعدہ آغاز کیا ہے جو بے دردی اور غیرانسانی تشدد کے ذریعے اسیران کی لاشیں پھینکنے کا گھناونا عمل کر رہے ہیں، بلوچستان میں کوئی گھر ایسا نہیں جس میں کوئی فرزند خفیہ اداروں کی بھینٹ نہ چڑا ہو۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کی اس انسانی المیہ پر پوری دنیا خاموش تماشائی ہے بلوچ فرزندوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی واپسی کی راہ تکتے رہتے ہیں لیکن حراستی شہادت کے واقعات نے ان کی امیدوں کا دم گھونٹ دیا ہے اُنھیں سوفیصد یقین ہے کہ انکے پیاروں کی لاشیں انہیں ملیں گی کیونکہ انہیں دشمن سے یہی توقع ہے اگر کوئی خفیہ اداروں کی عقوبت خانوں سے بچ کر بازیاب ہو جائے تو محض یہ ایک اتفاق ہوگا کیونکہ بہت سے جبری لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ گذشتہ روز 21 جون کو کسی تنظیم کی جانب سے انکے بیان کو تھوڑ مروڑ کر پیش کیا گیا جہاں انکے بیان کے آخر میں الفاظ کا اضافہ کیا گیا اس سے میرا کوئی تعلق نہیں میرا بیان مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے جو اس سے مختلف ہے-