بلوچ طلباء کو جبری گمشدگی، جعلی مقابلوں و ہراسگی کا سامنا ہے – بی ایس او

223

بی ایس او پچار اور بی ایس او کے مرکزی رہنماؤں نے کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت مالی بحران اور دیگر مشکلات کے سبب اہم تعلیمی ادارے یا تو مکمل بند ہیں یا پھر اساتذہ اور ملازمین کے احتجاج سے تعلیمی سلسلہ ماند پڑھ چکا ہے۔ اس وقت صوبے کا سب سے بڑا ادارہ جامعہ بلوچستان گزشتہ ایک ماہ سے مکمل بند ہے، تربت یونیورسٹی کو بھی تاحکم ثانی بند کردیا گیا ہے جبکہ انجنئرنگ یونیورسٹی خضدار، آئی ٹی یونیورسٹی، ایس بی کے و دیگر ادارے بھی شدید مالی و انتظامی بحران کا شکار ہیں۔ ہم بحثیت طلباء تنظیم ان تمام اداروں کی بندش اور زبوں حالی کو خود ساختہ اور گھناونے سازش قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ معاشی مسائل کا بہانا بناکر ہمارےتعلیمی اداروں کو بند کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ طلباء کو پہلے ہی سے جبری گمشدگی، جعلی انکاؤنٹرز اور قومیت کے بنیاد پر ہراسمنٹ کا شکار بنایا گیا ہے جبکہ اب براہ راست ہمارے تعلیمی اداروں میں بحران پیدا کرکے انہیں بندکرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ حالیہ دنوں خضدار، تربت و بلوچستان کے دیگر علاقوں سے درجنوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو لاپتہ کردیا گیا ہے جبکہ اس وقت بلوچ طلباء کی ہراسمنٹ سے متعلق عدالتی کمیشن کی رپورٹ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود ہے۔ اس کے باجود بھی طالبعلموں کو ماورائے قانون گمشدہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں آئین، عدلیہ اور قانون کی خلاف ورزی تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔

بی ایس او کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان کے تمام جامعات بشمول جامعہ بلوچستان اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بجٹ سے محروم ہیں۔ جامعہ بلوچستان کے اساتذہ اور ملازمین کو گزشتہ تین مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں جس کے بنا پر جامعہ بلوچستان مکمل بند ہے۔ جامعہ کی بندش سے گزشتہ بیچ میں فارغ ہونے والے طالبعلموں کے رزلٹ اب تک نہیں ملے ہیں ۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ اس وقت محکمہ تعلیم، بلوچستان پبلک سروس کمیشن و دیگر اداروں میں ہزاروں پوسٹیں آئے ہیں لیکن جامعہ کی بندش سے ہزاروں طالبعلم اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرسکے جبکہ دوسری طرف طالبعلم ہر سمسٹر میں بھاری بھرکم فیس دیتے ہیں ، ادارے کہ بندش سے نہ صرف طالبعلموں کے سمسٹرکریش ہورہے ہیں بلکہ وہ کلاسز کے بغیر بھی فیس دینے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف مالی بحران کا بہانا بنا کر جامعات میں موجود بلوچی، براہوئی و لینگوئجز کو بند کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ یہ عمل نا صرف بدنیتی اور بدترین تعصب پر مبنی ہے بلکہ اس کا مقصد بلوچی زبان اور بلوچ قوم کی تاریخی ورثاء کا گلا گھونٹنا ہے حالانکہ جامعات میں بلوچی و براہوئی ڈپارٹمنٹس انتہائی قلیل بجٹ سے چل رہی ہیں لیکن سیکریٹری ہائیرایجوکیشن کا مالی بحران کو ان ڈپاڑٹمنٹ سے جوڑنا احمقانہ اور سازشی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ مادری زبانیں کسی بھی قوم کی شناخت ہوتی ہیں انہیں دوسرے قوموں سے جداگانہ شناخت دیتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچی و براہوئی ڈیپارٹمنٹس کو بند کرنا براہ راست بلوچ شناخت پہ حملہ کرنے کی مترادف ہے اور بلوچ طلباء تنظیمیں اس معاملے پی کسی بھی قسم کے مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہونگے۔ ایسا کوئی بھی اقدام اٹھانے کی صورت میں ہمارے طرف سے شدید رد عمل کی توقع رکھی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اساتذہ کرام اور ملازمین کے جائز مطالبات پر نہ صرف انکی حمایت کی بلکہ ان کے تمام احتجاجات میں شامل رہے۔ حالیہ احتجاج میں ہم نے طلباء کے مطالبہ کو لیکر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران سے ایک تفصیلی ملاقات کی اور انکو بھرپور حمایت کا یقین دلایا لیکن ان سے کلاسز کھولنے اور طلباء کے امتحانی رزلٹ جاری کرنے کی اپیل کی مگر مزاکرات سود مند ثابت نہ ہوسکے۔ گورنمنٹ آف بلوچستان اور یونیورسٹی کے درمیان ہونے والی چپکلش میں ہزاروں طالبعلموں کا کیرئیر ذرائع ہورہا ہے جو تعلیمی زوال کا موجب ہے۔ لہٰذا ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہوں کو جلد ریلیز کی جائے تاکہ یونیورسٹی میں تعلیمی ماحول برقرار رہے۔

انکا کہنا تھاکہ گزشتہ رو ز تربت یونیورسٹی نے بلاوجہ ایک نوٹفکیشن کے ادارے کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور راتوں رات ہاسٹلز سے طلباء و طالبات کوزبردستی نکالنے کا حکم دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ عمل انتہائی باعث شرمندگی ہے کہ طلباء کے خدشات کو سننے کے بجائے ایک تعلیمی ادارے کو بند کیا جائے لہٰذا ہم تربت یونیورسٹی کے طالبعلموں کی احتجاج کا بھرپور حمایت کرتے ہوئے چانسلر و گورنر بلوچستان سے اپیل کرتے ہیں کہ انتظامیہ سے جواب طلبی کرے اور انتظامیہ طلباء کے خلاف انتقامی کاروائیاں ترک کرکے طالبلعموں کے مسائل فوری حل کرے۔

رہنماؤں نے کہاکہ آج کی پریس کانفرنس میں ہم جامعہ کے ہزاروں طالبعلموں کا بیانیہ لیکر کلاس بائیکاٹ کی احتجاج کا مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ہم سجمھتے ہیں کہ کلاسز کی بائیکاٹ سے ہزاروں طالبعلم فیس دیکر بھی تعلیم سے محروم ہیں ۔موجودہ احتجاج کو بیشتر اساتذہ اور ملازمین کی حمایت حاصل نہیں ہے بلکہ چند لوگ اپنے اس فیصلے پر بضد ہیں ۔ لہذا ہم اپنے معزز اساتذہ اور ملازمین سےدرخواست کرتے ہیں کہ کلاسز اور شعبہ امتحانات کو فوری کھولا جائے۔ طلباء کی طاقت کے ساتھ ملکر اس جدوجہد کو مذید مضبوط اور توانائی بخشی جاسکتی ہے۔
اس وقت ہزاروں طالبعلموں کی درخواست پر ہم مجبور ہوکر یہ اعلان کرتےہیں کہ ہم جامعہ کی مسلسل بندش پر بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کرکے قانونی پٹیشن دائر کیا ہے۔ہمیں بھرپور یقین ہے کہ عدالت عالیہ سے بلوچستان کے سینکڑوں طالبعلموں کو انصاف ملے گا۔