اظہار رائے کی آزادی کی موضوع پر تربت میں سیمینار کا انعقاد

205

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے زیراہتمام “مکران میں اظہار رائے کی آزادی کی صورت حال” کے موضوع پر تربت پریس کلب میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی، سماجی، ادبی اور مذہبی شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ایچ آر سی پی کے ریجنل کوآرڈینیٹر و معروف ادیب پروفیسر غنی پرواز نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار رائے کا بنیادی مقصد اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے زبانی، تحریر و تقریر اور آرٹ کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کرے، اس کی بہت بڑی اہمیت ہے اس سے ایک دوسرے کے خیالات سمجھنے اور جانچنے میں مدد ملے گی، اس کی تاریخ ہے، زمانہ قدیم میں اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں دیکھی گئی۔

انہوں نے کہا کہ غلام دارانہ سماج کی تشکیل کے بعد اس پر بندش شروع ہوئی، حکمران طبقہ نے ایک پیمانہ مقرر کیا جس میں عام لوگوں کی رائے زنی پر پابندی لگائی گئی تاہم کافی مدت صبر کے بعد سماج نے بغاوت کی اور اپنی آزادی کے لیے قربانیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا، اسپارٹکس، سقراط، برونو، منصور حلاج، جون آف آرک، قرۃ العین، ابراہیم لنکن، مہاتما گاندھی، اندرا گاندھی، نوروز خان، لالا عثمان کاکڑ جیسے باضمیر شخصیات نے جان کا قربانی دی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف ایک سال کے دوران 46 صحافی شہید، 18 زخمی اور 4 لاپتہ کیے گئے اور یہ جنگ ابھی تک جاری ہے، ترقی یافتہ اور باشعور معاشروں نے ان قربانیوں کے طفیل کافی ترقی کی مگر جہاں پر ترقی کی رفتار کم یا سست رہی وہاں حالات آج بھی بھتر نہیں ہوئے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یورپ اور امریکہ کے علاوہ ایشیا میں بھی متعدد ممالک نے اس حوالے سے کافی فائدہ اٹھایا سیکولر جمہوری نظام بناکر سیاسی، معاشی اور ثقافتی ترقی کی۔

پی این پی عوامی کے مرکزی رہنما خان محمد جان گچکی اور سوشل ورکر ڈاکٹر سمی بلوچ نے کہاکہ ہمارے ملک میں رائے کی آزادی برائے نام ہے، صحافت پر کھٹن اور مشکل حالات اس وقت ہیں کبھی نہیں تھے، ٹی وی اور اخبارات پر قانون کا سہارا لے کر قد غن لگائی گئی ہے، آئین بدقسمتی سے اپنے تحفظ میں ناکام ہے، متعدد صحافی پابند سلاسل ہیں جبکہ فوجی آمریت کے ادوار میں صحافیوں کو کوڑے مارے گئے، تربت میں رزاق گل اور الیاس نظر شہید کیے گئے جو صحافی تھے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر قدیر لقمان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ برطانوی کالونی کی حیثیت سے حکمران طبقہ کے خلاف رائے دینے پر پابندی عائد تھی، آج بھی عملی طور پر دنیا میں رائے کی آزادی محدود ہے، انسان کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان کے جی میں جو آئے وہ دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنے حق اور فرض کے درمیان جو باریک لکیر ہے اسے سمجھ کر اپنا حق استعمال کرنا چاہیے۔

سماجی کارکن شگراللہ یوسف نے کہا کہ جب کہیں کسی سماج میں انسانوں کو اپنی رائے کی آزادی میں رکاوٹ یا مشکلات کا سامنا کرنا پڑے وہاں انسانی حقوق اور سماجی شعور محدود ہوجاتی ہے، وہاں کا پریس سلف سنسر شپ لگانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ مکران میں انسانی حقوق اور آزادانہ رائے کے اظہار پر پابندی کا رجحان شدید نظر آرہا ہے یہ خوش کن نہیں ہے۔

مکران بار ایسوسی ایشن کے رہنما رستم جان گچکی ایڈوکیٹ نے کہاکہ اظہار رائے کی آزادی کسی معاشرے کے خوبصورتی کی ضامن ہے، پاکستان کے آئین میں ہر شھری اور پریس کے آزادی کی واضح ضمانت دی گئی ہے۔

تربت پریس کلب کے جنرل سیکرٹری ماجد صمد نے کہا کہ دنیا کے ہر شہری کو اقوام متحدہ کے چارٹر میں رائے کی آزادی کا حق دیا گیا ہے اسی طرح پاکستان میں بھی یہ قانون ہے لیکن آئین کے اندر ہی کچھ دفعات کے تحت رائے کی آزادی مسدود کردی گئی ہیں، ملک کے دفاعی معاملات یا مذہبی معاملات پر رائے دینے کی پابندی ہے اگر ان معاملات پر بات کی جائے تو مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا، سوشل میڈیا پر بھی کافی بندش ہیں۔

کیچ بار ایسوسی ایشن کے ترجمان عبدالمجید ایڈوکیٹ دشتی نے کہا کہ پاکستان اور دنیا کے تمام ممالک کے آئین میں شھریوں کو اپنی بات کہنے اور رائے دینے کا حق دیا گیا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انسانی حقوق روز بروز محدود کیے جارہے ہیں، اسلام نے بھی انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے، بلوچ نوجوانوں کے بعد بلوچ عورتوں کے خلاف ریاست کے اداروں کی تشدد بڑھ رہی ہے جو تشویش ناک ہے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے، سوشل ورکر شھناز شبیر نے ایک نقطہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ لانگ روٹ پر سفر کرنے والے مسافر بس کمپنیاں عورتوں کی مجبوریاں نظر انداز کرتی ہیں اور ان کی سہولت کے لیے معمولی قدم نہیں اٹھاتی۔