بلوچستان میں آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی – پشتونخواہ میپ

185

جمعرات کے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے زیر اہتمام بدترین مہنگائی اور اشیائے خور ونوش اور خصوصی طور پر آٹے کی مصنوعی قلت اور ارزاں نرخوں پر آٹے کی عدم دستیابی کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد ہوا۔

احتجاجی جلسے سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سینئر سیکرٹری سید عبدالقادر آغا، مرکزی سیکرٹری اطلاعات ونشریات محمد عیسیٰ روشان، مرکزی سیکرٹری حاجی اعظم مسے زئی، صوبائی سیکرٹری خوشحال خان کاسی، صوبائی ڈپٹیسیکرٹریز رحمت اللہ صابر، ندا سنگر اورعبدالرزاق خان بڑیچ نے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان میں آٹے کی مصنوعی قلت، ان کی بڑھتیہوئی قیمتوں، بدترین مہنگائی، بیروزگاری اور اشیائے خورونوش کی ہوشربا قیمتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناقابل قبولقرار دیا اور کہا کہ وفاقی اور اس صوبے کے صوبائی حکومت اور اس کے متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ بروقت صوبے کیضروریات کے مطابق گندم کی ارزاں نرخوں پر خریداری کرکے اسٹور کر لیتے اور ارزاں نرخوں پر بلوچستان کے غریب عوام کو ارزاںنرخوں پر آٹے کی سپلائی جاری رکھتے۔

جبکہ ہماری صوبائی حکومت نے سیزن میں صرف 2 لاکھ گندم کی بوری کی خریداری کی اور ہمارے صوبے کی ضرورت تقریباً 10 لاکھ بوری گندم سے کچھ زائد تھی اور اب آنے والے مہینوں کے لئے 6 لاکھ بوری گندم کی ضرورت ہے جس کے لئے ابھی تک کوئیبندوبست نہیں کیا گیا ہے اور اب موجودہ صورتحال اور آٹے کی قلت کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے اور آٹے کیقیمتوں میں اضافے کی ذمہ دار بھی صوبائی حکومت ہے کیونکہ پنجاب کی صوبائی حکومت اپنے کاشتکاروں کی مالی مدد کے لئےگندم کی نرخوں میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور اپنے عوام کو آٹا دینے کی صورت میں سبسڈی دیتا ہے۔ اگر ہماری صوبائی حکومت بروقتسیزن میں خریداری کرتے اور غریب عوام کو آٹے کی مد میں سبسڈی دیتے تو یہ سنگین صورتحال مسلط نہ ہوتی اور اسی طرحاشیائے خورد ونوش کی گرانی صوبائی حکومت اور متعلقہ حکام کی ناکامی ثابت کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے میں کاروبار کرنے والے تمام بینکوں کے حکام بھی قابل گرفت ہے جو گندم کے کاروبار کرنے والے تاجروںکو بروقت قرضے نہیں دیتے اگر بینکوں کے حکام تاجروں کے ساتھ قرضوں کی مد میں تعاون کرتے تو ہمارے تاجر پرائیوٹ طور پر بھیسیزن کے اوقات میں ارزاں نرخوں پر گندم کی خریداری کرتے اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے اربوں روپے کے گندم کی بیج خریدنے اور تقسیم کرنے کے دعوؤں کے باوجود وہ اصلکاشتکاروں کو نہیں ملا بلکہ 50 فیصد سے زائد بیج کے نام پر لوٹ مار اور کرپشن کا ذریعہ بنا اور اب اس شدید سردی کے موسممیں کوئٹہ سمیت تمام علاقوں میں گیس اور بجلی کی سہولت موجود نہیں۔ کوئٹہ، کچلاک، پشین، زیارت،مستونگ اور قلات میں گیسکی مسلسل عدم فراہمی اور پریشرکی کمی کی صورتحال نے غریب عوام کو اذیت ناک صورتحال میں مبتلا رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2018 سے دھاندلی کے ذریعے مسلط حکومتوں نے زندگی کے ہر شعبے کو تنزلی کا شکار کرکے غریب عوام پر ہر قسمکے روزگار کے دروازے بند کردئیے اور بدترین مہنگائی مسلط کردی جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت بھی ناکامی سے دوچار ہوکر عوام سےجینے کا حق بھی چھین لیا اور زندگی کے انتہائی بنیادی ضرورتوں کی مد میں بھی عوام کو ریلیف اور سبسبڈی نہیں دے سکتے اوران کی بنیادی وجہ آمر حکمرانوں اور ان کے کاسہ لیسوں کی ہمیشہ عوام کے حقیقی حق حکمرانی پر ڈاکہ ڈالنے اور اپنے نام نہادایجنٹوں کو دھاندلی کے ذریعے عوام پر مسلط کرنا ہے۔

انہوں نے کہا ایف بی آر اور کسٹم حکام کی جانب سے نئے ٹیکسز اور تاجروں کے دکانوں اور گوداموں پر غیر قانونی چھاپے اوردکانوں کو سیل کرنے کے عوام دشمن اقدامات کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ بدترین بیروزگاری، بدترین مہنگائی اور گزشتہ سالکے طوفانی بارشوں اور سیلابوں اور اس کے باعث ہونے والے نقصانوں اور زراعت کی بربادی کی وجہ سے ہمارے صوبے کے غریب عوامکی مکمل اکثریت کی قوت خرید ختم ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کے کاروبار پر بندش کا مقصد درحقیقت ایف سی اور دوسرے حکومتی اداروں کی بھتہ خوریکو یقینی بنانا ہے حالانکہ ملکی پیٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے بعد ایرانی پیڑول اور ڈیزل غریب عوام کے لئے ریلیفسے کم نہیں جس طرح ایف سی کسٹم حکام گاڑیوں اور دوسرے سامانوں کے اسمگلنگ اور رشوت گیری میں سرعام ملوث ہے اسیطرح ایف سی سمیت مختلف سرکاری ادارے ایرانی پیٹرول و ڈیزل کے کاروبار میں سرعام ملوث ہے اور ایسے اداروں کو کھلی چھوٹدی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غریب ریڑھی بانوں، تھڑے پر مزدوری کرنے والوں، زرنج و چنگ چی رکشے چلانے والے سمیت غریب عوام کے ساتھپولیس کا ہتک آمیز اور رشوت خوری پر مبنی طرز عمل اور رویہ قابل مذمت اور قابل گرفت ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ یونیورسٹی کی مالی بحران اور ان کے اساتذہ و ملازمین کی بروقت تنخواہوں کی عدم ادائیگی درحقیقت صوبےکے اس تاریخی علمی درس گاہ کو ناکامی سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ وزیراعلیٰ کوئٹہ یونیورسٹی کے مالی بحران کے خاتمے کےلئے فنڈ کی فراہمی یقینی بناتے ہوئے فوری اقدام کریں۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں کالجز کے پروفیسروں اور لیکچررز کی بلاجواز اور انتقامی بنیادوں کی بنیاد پر ہونے والے تبادلےقابل مذمت ہیں۔