اسلام آباد: جعلی مقابلوں میں بلوچ لاپتہ افراد کے قتل کیخلاف احتجاج

162

بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد کی جانب سے سانحہ نشتر ہسپتال ملتان اور نوشکی و مستونگ میں لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں مظاہرین نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچ نسل کشی اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اس خطے میں بہت جلد انسانی بحران جنم لے گا ریاستی ادارے اپنے بنائے ہوئے آئین و قانون سمیت بین الاقوامی قوانین کو مسلسل پاؤں تلے روند رہے ہیں جس سے انسانی حقوق کے اداروں اور بین الاقوامی قوانین کے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔

مقررین نے مزید کہا کہ چار مہینے قبل زیارت کے مقام پر سیکورٹی فورسز نے نو لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کردیا جس کے خلاف لاپتہ افراد کے لواحقین نے کوئٹہ ریڈ زون میں 50 روز تک تاریخی دھرنا دیا لواحقین نے وفاقی حکومت اور وفاقی کمیشن سے تحریری معاہدے کیا جس کے بنیادی نکات ہی یہی تھا کہ اب لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا۔

ما ظاہرین کا کہنا تھا لواحقین اور حکومتی معاہدے کو ابھی دو مہینے پورے ہی نہیں ہوئے کہ ایک دفعہ پھر ریاستی اداروں نے نوشکی اور مستونگ سے دس لوگوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کردیا جن میں اکثریت پہلے سے زیر حراست تھیں-

انہوں نے کہا ملتان کے نشتر ہسپتال سے پانچ سو کے قریب مسخ شدہ لاشیں لائی گئی تھی، جو ممکنہ خدشات کے مطابق لاپتہ افراد ہیں لیکن اس سنگین مسئلے کو دبایا گیا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔

مقررین نے آخر میں کہا کہ اب بلوچستان میں انسانی حقوق کی یہ صورتحال ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت اور عدلیہ براہ راست اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا اظہار کررہے ہیں بلوچستان میں تمام تر اختیارات اور معاملات عسکری اداروں کے سپرد ہیں جس سے بلوچستان کے انسانی حقوق کی صورتحال میں دن بہ دن شدت پیدا ہوتا جارہا ہے۔