کوئٹہ اور کراچی میں عید کے روز لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج

530

عیدالفطر کے پہلے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بلوچ اور سندھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کیا۔ احتجاج میں خواتین و بچوں نے حصہ لیکر عید کا پہلا دن پریس کلبوں کے سامنے گزارا جبکہ اس موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین آبدیدہ ہوگئے۔

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں عیدالفطر کے پہلے دن کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے کی اپیل بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے دی تھی۔ احتجاج میں لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت طلباء تنظیموں کے رہنماوں اور کارکنان، ایکٹوسٹس، سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی۔

ہاتھوں میں بینرز، پلے کارڈز اور پیاروں کی تصویریں اٹھائے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے نعرہ بازی کرتے ہوئے ریاست سے اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا۔

احتجاجی مظاہرے میں 13 سال قبل لاپتہ ہونے والے طالب علم رہنماء زاکر مجید کی والدہ شریک تھی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میں گذشتہ 13 سالوں سے اپنے لخت جگر کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہوں اور حکمرانوں کے دروازوں پر دستک دے رہی ہوں لیکن انہیں بلوچستان کے ماؤں پر کوئی رحم نہیں آتی ہے۔

احتجاجی مظاہرے میں لاپتہ جہانزیب، لاپتہ محمد سعید، لاپتہ غیاث الدین، لاپتہ آصف و رشید، فیاض، راشد ، ارشاد سرپرہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سالوں سے سراپا احتجاج ہیں، ریاست کو اپنے عدالتوں پر بھروسہ نہیں تو اسکا سزا ہمیں نہیں دیا جائے۔

کوئٹہ مظاہرین میں بلوچستان کے سیاسی و سماجی تنظیموں کے کارکنان بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے جنہوں نے حکومت و سرکاری اداروں سے لاپتہ افراد کی بازیابی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے-

عید کے روز بلوچستان کے مختلف اضلاع میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ جاری رہ۔ آج بلوچستان سندھ سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا-

ادھر سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیجانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاج میں سندھی کارکنان، بلوچ یکجہتی کمیٹی، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) اور دیگر تنظیموں کے کارکنوں، لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت بڑی تعداد میں خواتین، مردوں اور بچوں نے شرکت کی۔

متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کے شکار بلوچ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی والدہ، بی این ایم کے لاپتہ رہنماء ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، لاپتہ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ، و دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین شریک ہوئے لواحقین کا مطالبہ تھا کہ ہمیں ہمارے پیارے لوٹا دیں اگر ان پر کوئی الزام ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے لیکن اس طرح سالوں سے انہیں غائب کرنا بدترین ظلم ہے –

کراچی پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ میں خواتین، بچوں سمیت سیاسی سماجی کارکناں کی بڑی تعداد نے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بلوچستان اور سندھ میں لاپتہ افراد بڑھتے ہوئے تعداد پر حکومت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے سے مظلوم قوموں کو خاموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

دریں اثناء بلوچ یکجہتی کمیٹی پنجگور کے کال پر عید کے روز عوام کی بڑی تعداد گھروں سے باہر نکل آگئی- مظاہرین نے گذشتہ دونوں پنجگور میں قتل ہونے والے نوجوان داد جان عنایت کی قاتلوں کی گرفتاری، بلوچستان بلخصوص پنجگور میں مبینہ طور ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ملیشیاء اور تعلیمی اداروں سے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا-

مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں ریاستی اداروں کی جانب سے چور اور جرائم پیشہ افراد کو طاقت فراہم کرکے کھلی چھوٹ دینے کے بعد جرائم پیشہ افراد ریاستی سرپرستی میں لوگوں کو دن دھاڑے قتل کرتے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ داد جان عنایت کے قاتل پنجگور کے پیشہ وار ڈیتھ اسکواڈ کے ارکان ہیں ریاستی ادارے ایسے لوگوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہیں جن کی وجہ سے آئے روز بلوچستان میں نوجوان قتل ہوتے ہیں۔ مظاہرین نے شہید داد جان عنایت کے قتل میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے-

بلوچ یکجہتی کمیٹی پنجگور کے احتجاج میں شریک مظاہرین نے بلوچستان سمیت کراچی اور پنجاب کے تعلیمی اداروں سے بلوچ طلباء کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں غیر قانونی حراست و جبری گمشدگی کو تشویشناک عمل قرار دیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ بلوچ نوجوان نا اپنے علاقوں میں محفوظ ہیں نا تعلیمی اداروں میں محفوظ ہیں۔

دریں اثناء سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جبری گمشدگیوں کیخلاف کمپئین جاری رہی جس میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے پاکستان میں جبری گمشدگیوں حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔