بلوچ طلباء کو نسلی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا ہے- بلوچ کونسل اسلام آباد

300

طلباء کی جبری گمشدگیوں و پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی ہراسگی کے خلاف بلوچ کونسل کی جانب سے ایک بار پھر اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم، طلباء نے احتجاجی کیمپ سے صحافیوں کو تفصیلی بریفنگ دی-

اسلام آباد پریس کلب کے سامنے صحافیوں سے گفتگو میں طلباء کا کہنا تھا کہ بلوچ طلباء انتہائی غیر محفوظ حالات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئے روز بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طالب علموں کو ہراساں کرنا یونیورسٹی کیمپس کے اندر بلوچ طلباء کی نسلی پروفائلنگ اور انہی جیسے دیگر ہتھکنڈے استعمال کرکے بلوچ طلباء کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا گیا ہے-

صحافیوں سے گفتگو میں بلوچ طلباء کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے غیر محفوظ حالات اور تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ جبری گمشدگی جیسے مظالم سے تنگ آکر بلوچ طلباء نے یہ سمجھ کرتعلیمی سرگرمیوں کو مکمل کرنے کے غرض ملک بھر کے دوسرے شہروں کا رُخ کیا کہ شاید بلوچستان سے باہر وہ ایک پُرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں گے لیکن بدقسمتی سے بلوچ طلباء کیلئے بلوچستان سے باہر کے حالات بدتر ہیں ہراسمنٹ اور جبری گمشدگی کے ساتھ ساتھ اب یہاں بھی بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے کی گہری سازشیں جاری ہیں اور انہیں ڈر اور خوف کی فضا میں جینے پر مجبور کیا گیا ہے۔

طلباء نے صحافیوں سے اپنے گفتگو میں کہا کہ آپ بخوبی واقف ہونگے کہ پہلے بلوچ طلباء کو تعلیمی اداروں میں مسلسل ہراساں اور پروفائلنگ کے بعد جبراً لاپتہ کیا جاتا ہے حال ہی میں ایک بلوچ طالبعلم بیبگر امداد بلوچ کو پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ہاسٹل نمبر 7 سے صبح 7:40 بجے ریاستی اداروں کی جانب سے جبراً لاپتہ کیا گیا جہاں پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر بنامِ کرنل عبید اور یونیورسٹی انتظامیہ نے باقاعدہ بیبگر امداد بلوچ کی جبری گمشدگی میں اغواء کاروں کی مدد بھی کی بیبگر امداد بلوچ نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب کے طالب علم ہیں اور وہ عید کی چھٹیاں منانے اپنے کزن کے ہاں پنجاب یونیورسٹی لاہور گئے تھے جہاں اُس کو بِنا ایف آئی آر اور بغیر کسی جرم کے جبراً لاپتہ کیا گیا اور بعد ازاں بدنامِ زمانہ سی ٹی ڈی نے اُن پر جھوٹا اور بے بنیاد الزام عائد کیا جو کہ تشویشناک ہے طلباء کا کہنا تھا کہ بیبگر امداد بلوچ کو پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے جبراً لاپتہ کرنا اور ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کو بار بار ہراساں کرنا اس امر کی گواہی ہے کہ بلوچ طلباء کو دانستہ طور پر تعلیم سے دور رکھنے کی تمام تر ریاستی کوششیں جاری ہیں-

انہوں نے بتایا کہ بلوچ طلباء کی ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی بیبگر امداد بلوچ اس ہراسمنٹ کا پہلا ویکٹم ہے بلکہ یہ سلسلہ سالوں سے چلتا آرہا ہے جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ حفیظ بلوچ جو قائدِ اعظم یونیورسٹی میں ایم فل فزکس فائنل سمسٹر کے طالب علم تھے جب وہ چھٹیوں میں اپنے آبائی علاقے ضلع خضدار گئے تھے اُسے وہاں کی ایک نجی اکیڈمی سے سینکڑوں طلباء اور اساتذہ کے سامنے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور اس پر بے بنیاد و منگھڑت الزامات لگائے گئے جب طلباء نے ملک بھر میں شدید احتجاج ریکارڈ کرائی اور متعدد دنوں کیمپ میں بیٹھے رہے تب جاکر ان کو منظرعام پر لایا گیا مگر ان پر سنگین جرائم کے بے بنیاد مقدمات داغے گئے آج بھی وہ بلا وجہ زندانوں میں اذیتیں کاٹ رہا ہے۔

طلباء کا کہنا تھا کہ بیبگر امداد کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے بعد سے پنجاب یونیورسٹی کے اندر بلوچ طلباء نے وی سی آفس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور وہ پچھلے 7 دونوں سے احتجاجی کیمپ لگاکر بیٹھے ہیں مگر پنجاب یونیورسٹی کی سیکیورٹی گارڈز کی جانب سے بلوچ طلباء کے احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی پنجاب پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ کی بلوچ طلباء کے ساتھ ناروا سلوک انتہائی حیران کن ہے جہاں ایک طرف بلوچ طلباء کئی مظالم سے دو چار ہیں اپنی ہراسمنٹ اور جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو دوسری جانب ہم سے پر امن احتجاج کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں بلوچ مظاہرین کا کہنا تھا کہ بلوچ طلباء کے لئے حالات دن بہ دن مزید گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں کسی بھی واقعہ کے بعد اجتماعی سزا کے طور پر بلوچ طلباء کو مسلسل جبر کا نشانہ بنانے اور انہیں جبراً لاپتہ کرکے غیر انسانی سلوک سے بلوچ طلباء کے اندر ایک خوف جنم لے چکا ہے وہ عید کے خوشی کے موقعے پر بھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ نہیں سکتے کہ کہیں وہ بھی اس غیر قانونی جبر کا نشانہ نہ بنیں اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم آج عید کے دن ایک احتجاجی کیمپ کا اعلان کرتے ہیں ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بیبگر امداد بلوچ اور حفیظ بلوچ کو بحفاظت رہا کیا جائے اور ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی پروفائلنگ اور ہراسمنٹ بند کی جائے بصورت دیگر اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء اپنی ڈگریاں چھوڑنے اور اپنے تعلیمی سفر کو مکمل طور پہ خیرباد کرنے کے لئے مجبور ہونگے۔

طلباء کا کہنا تھا کہ بیبگر امداد بلوچ کی جبری گمشدگی کو لیکر بلوچ طلباء ان کے لئے کافی فکر مند ہیں ہم ریاستی اداروں حکومتِ وقت اور عدالتِ عالیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ بیبگر بلوچ اور حفیظ بلوچ کی بحفاظت رہائی عمل میں لائی جائے اگر بیبگر امداد بلوچ کسی جرم میں ملوث ہے یا انکے خلاف کوئی ثبوت موجود ہے تو آئین و قانون کے مطابق اُنہیں عدالت میں پیش کیا جائے طلباء کا کہنا تھا کہ ہم انسانی حقوق کے کارکنوں، تمام طلباء تنظیموں اساتذہ کرام زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور ملک بھر کے انسان دوست افراد سے التماس کرتے ہیں کہ وہ اِن غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کے خلاف بلوچ طلباء کے ساتھ ہم آواز ہو کر ان مظالم کی روک تھام کیلئے ہمارا ساتھ دیں۔