داد جان کی شہادت اور شکوک و شبہات – دانیال بلوچ

838

داد جان کی شہادت اور شکوک و شبہات

تحریر: دانیال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

داد جان، دادو، دادول!

اہل خدابادان سمیت پنجگور میں مواچ چوک سے واقفیت رکھنے والا یا پھر پنجگور میں فٹبال کا کوئی بھی شائقین ہو اس شخص کو ضرور جانتا ہوگا۔ داد جان اپنے شائستہ گوئی، چہرے پر مسکراہٹ، ہر اک کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار لوگوں کے دلوں میں جلد ہی جگہ بنا لیتا تھا۔

مواچ چوک میں موجود وہ سبزی کی دکان پر ہمہ وقت ہجوم رہتا، فارغ شخص ہو، گورنمنٹ کا ملازم ہو، ڈرائیور ہو، مزدور ہو یا کوئی ٹیچر، ڈاکٹر یا پھر بینکر۔ اس دکان میں ہر شخص چند لمحے ٹھہرتا گپ شپ کرتا اور اپنی منزل کو نکلتا۔ دن ہو یا رات، اچانک کوئی مہمان نمودار ہو جائے یا پھر جلد بازی میں بازار سے سبزی، روٹی، دودھ، دہی کچھ بھی لینا آپ بھول گئے ہوں تو پہلا کام جو یاد آتا “داد جان کو فون” دادول، یہ چیز تو کسی کے ہاتھوں بجھوا دینا اور وہ چیز کسی کے ہاتھ پہنچ جاتی یا پھر آٹھ بجے کے قریب وہ شخص خود ہی سامان لے کر پہنچ جاتا۔ یہ تھا وہ شخص جس نے تمام اہل خدابادان کو اشکبار کر دیا تھا۔

21 اپریل 2022 کو معمول کے مطابق داد جان اپنی دکان پر بیٹھا رہا۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو اپنے ساتھ والے دکانداروں کے ساتھ قریبی مسجد سے نماز ادا کی اور واپس دکان پر آ پہنچا۔ کپڑے بدلے اور حساب کتاب کی کاپی اٹھا لی۔ چند لمحے گذرے ہی تھے کہ ایک موٹر سائیکل پر دو مسلح شخص دکان کے سامنے رکے۔ ایک شخص کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھا جس نے اپنا رخ داد جان کی طرف کیا اور برسٹ چلا دی، دادول نے اس خطرے کو پہلے ہی بھانپ کر خود کو ایک طرف گرا دیا تھا۔ پہلے حملے سے اس شخص نے اپنے آپکو بچا تو لیا تھا مگر اس شخص نے موٹر سائیکل پر سے اتر کر داد جان کی طرف قدم بڑھائے، کچھ منٹوں کی تگ و دو اور ایک اور برسٹ۔۔۔!

“دادول زمین پر گر پڑا، اسکے بدن سے خون کی لہر سر زمین کا بوسہ لیتے ہوئے بہہ رہا تھا، وہ افراد دوبارہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر کہیں روپوش ہو گئے۔ ساتھی دکاندار چند منٹ کے لئے حواس کھو چکے تھے اور جب انہیں ہوش آیا بہت دیر ہوچکی تھی۔”

حواس باختہ دکانداروں نے مواچ چوک سے گذرتی گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی مگر کون ایسے وقت خطرہ مول لینے کے لئے تیار ہوتا، چند منٹوں بعد ایرانی دو ہزار گاڑی رکی، تب تک قریبی گھروں سے لوگ دکان تک پہنچے تھے جنہوں نے مل کر داد جان کو اس میں لیٹا دیا اور خدابادان شہر کے راستے ہسپتال کی جانب چل دیئے، ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی دادول اس دنیا فانی سے رخصت ہو چلا تھا۔

ہسپتال میں ضروری کاروائی کے بعد دادول کی جسد خاکی کو گھر لایا گیا۔ شام تک پورا گھر لوگوں کے ہجوم سے بھر چکا تھا۔ رات 8 بجے کے قریب قبرستان کی جانب روانہ ہوئے۔ کہور قبرستان کے قریب دور تک گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ لوگوں کا ہجوم اتنا تھا کہ قبرستان کی مسجد کے بجائے میدان میں نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ ہر شخص اشک فشاں تھا، سسکیوں کی آوازیں رات کی تاریکی میں کانوں سے ہوتے ہوئے دل تک پہنچ رہی تھی۔ داد جان کی جسد خاکی کو چند منٹ دیدار کے لئے رکھا گیا اور شہید تابش کے آخری آرام گاہ کے ساتھ ہی اسکے قدموں کے پاس سر رکھ کر داد جان دادول جسمانی طور پر ہمیں ہمیشہ کے لئے الوداع کر گیا۔

اس واقعے کے بعد علاقے اور خاص سوشل میڈیا پر مختلف فسانے گردش کرنے لگے جو کم و بیش ایک ہی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ مخلتف لوگوں نے جب اس واقعہ کو مختلف کڑیوں سے جھوڑ کر اپنے ذہن میں کہانی بنانے کی کوششیں کی تو کسی نے اس شہادت کو شہید تابش کے بھائی ہونے کے نتائج جانے، تو کسی نے شہید تابش کی تصاویر فیس بک اور وٹساپ پر شئیر کرنے کا انجام قرار دیا۔ مگر سب کی متوجہ حاصل کرنے والی کہانی پچھلے دنوں محمد گل نامی شخص کے تنظیم کے ہاتھوں قتل کی تھی۔ جسکے رد عمل میں “ایک گروپ” کے وٹسپ ایپ وائیسز منظر عام پر گردش کرنے لگے جس میں جذباتی انداز میں اس قتل کا بدلا تنظیم سے تعلق رکھنے والوں اور انکے رشتہ داروں سے جلد ہی لینے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔

داد جان کی شہادت کے محرکات سے یہ اندازہ لگانا بلکل بھی مشکل نہیں کہ اسکے پیچھے ڈیتھ سکواڈ یا انکے چلانے والوں کا ہاتھ ہے۔ اس واقعے کے بعد سے ہی مختلف سوشل اکاونٹس نے ایک طرف سے نسلی (بلوچ نقیب) تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس سے واضح تھا کہ اس ایجنڈے کا مقصد علاقائی امن و امان کو بگاڑنا تھا۔

اس مسئلے کی کڑیاں اگر ملا نوید گروپ کے وائسز سے ملائی جائیں تو یہ سمجھنے میں بلکل بھی دیر نہیں لگےگا کہ اس وائس کے بعد انہیں کسی فوری ری ایکشن کی ضرورت تھی اور داد جان کو ٹارگٹ کا مقصد اسکے کردار کے بجائے شہید تابش کا بھائی ہونا اور اسکی لوکیشن ہے جسے آسانی سے ٹارگٹ کیا جاسکتا تھا۔ نہتے داد جان، رمضان میں دوپہر کا سنسان وقت اور مواچ چوک چونکہ ملا نوید کے ٹکانے سے چند منٹوں کے فاصلے پر ہے جہاں کاروائی کے بعد آسانی سے بھاگا جاسکتا تھا اور داد جان کے قاتلوں کے انداز سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ تیاری کے بجائے موقع کو غنیمت جان کر کاروائی کرنے آئے تھے۔ اب ملا نوید گروپ کے پیچھے بھی وہی ہاتھ ہیں جو پنجگور میں ڈیتھ اسکواڈ کو ایکٹیو رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔

اسکے علاوہ گل محمد کی فیملی پر بھی شک و شبہ کیا جا سکتا ہے جنہیں انہی کے ذریعے استعمال کر کے اس کاروائی کو سر انجام دیا گیا ہوگا۔ یہ وہ تمام حالات و محرکات ہیں جن پر اس وقت بحث کیا جارہا ہے مگر سو فیصد ان کو ذمہ دار ٹھہرانا قبل از وقت ہے۔ ایک نقطہ جس پر سب مطفق ہیں وہ ریاستی ایجنسیوں کا کردار ہے جس کا ملوث ہونا سو فیصد یقینی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں