حکومت خطے میں رونماء ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مجبوراً بات چیت کے بارے میں سوچ رہاہے- سردار اختر مینگل

388

 

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن پاکستان اسمبلی سردار اختر مینگل نے خبر رساں ادارے این این آئی سے کفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ملک سے باہر موجود ناراض بلوچوں سے بات چیت کا سوچ رہے ہیں سوچنے اور فیصلہ کرنے میں فرق ہے لیکن کم سے کم انہیں تین سال بعد کسی نے سوچنے کی اجازت دی ہے کہ بلوچستان کے معاملات کے بارے میں بھی سوچا جاسکتا ہے جہاں تک ان سے بات چیت کا تعلق ہے تو ماضی میں دو سیاسی حکومتوں نے ان سے بات چیت کی کوشش کی لیکن کچھ قوتوں نے اس بات چیت کو آگے بڑھنے نہیں دیا اور مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کیا –

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل سوچنے نہیں بلکہ نیک نتی سے کام کرنے سے حل ہونگے جب ہم پی ٹی آئی کی حکومت کے اتحادی تھے تو ہم نے 6نکات وزیراعظم اور حکومت کے سامنے رکھے یہ چھ نکات در اصل مسائل کے حل کی طرف لیکر جانے کا ایک راستہ تھے جن پر چل کے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا تھا جب بھی وزیراعظم کے سامنے یہ نکات رکھے انہوں نے ان نکات پر غور اور مسائل کو حل کی جانب لیکر جانے کی بجائے سر کھجاتے ہوئے کہا کہ آپ ان مسائل پر آرمی چیف سے ملیں تب بھی انکے پاس بلوچستان کے مسائل کا حل نہیں تھا-

انہوں نے کہا کہ ناراض بلوچوں یا جنہیں انتہا پسند کہا جاتا ہے ان سے بات چیت کے لئے حکومت کے پاس اختیار نہیں ہے عمران خان کے اپنے الفاظ ہیں کہ وہ ابھی تک صرف سوچ ر ہے ہیں-

اگر مسئلہ حل کرنا ہوتا تو وہ کہتے کہ فیصلہ کرلیا ہے حکومت کو خطے میں رونماء ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مجبوا ً باہر بیٹھے لوگوں سے مذاکرات کو بات چیت کے بارے میں سوچنا پڑ رہا ہے-

سردار اختر کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کے اپنے وزراء اور انکی پارٹی کے لوگ ان سے ناخوش ہیں وزیراعلیٰ ہیڈ ماسٹر کی بے ساکھیوں کے سہارے کھڑے ہیں-

انہوں نے کہا کہ جو باپ کے ماہی باپ ہیں وہ بھی اس طرح کی نالائق اور نا اہل حکومت سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں مگر بد نامی کا ٹوکرا سر نہیں اٹھانا چاہتے-

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس مطلوبہ تعداد نہ ہونے کی وجہ سے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم نہیں لا پار ہے وزیراعلیٰ کے ایک طرف پی ٹی آئی اور دوسری طرف باچا خان کے سرخے انہیں سہارا دئیے کھڑے ہیں جب ہم پی ٹی آئی کے اتحادی تھے اور ہم نے نہ کوئی وزارت لی اور نہ ہی کوئی عہدہ تب عوامی نیشنل پارٹی کے لوگ ہم سے گلہ کرتے تھے کہ ہم نے عمران خان کو ووٹ دیا لیکن آج وہ نہ صرف باپ پارٹی کی حکومت میں وزارتیں لئے ہوئے ہیں بلکہ اسکے ترجمان اور مشیر بھی بنے ہوئے ہیں-

انہوں نے کہا کہ 18جون کو بلوچستان اسمبلی میں جو کچھ ہوااسے تمام جمہوری لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے ابتداء کس نے کی وزیراعلیٰ جس ایوان سے منتخب ہوئے ہیں اسی وزیراعلیٰ کے حکم پر اسمبلی کے دروازے کو بکتر بند گاڑی سے توڑا گیا جو ارکان ہزاروں لوگوں کے ووٹ سے حقیقی مینڈیٹ لیکر آئے ہیں انہیں زخمی کیا گیا جو کہ غیر جمہوری اقدام ہے جولوگ نسل در نسل غیر جمہوری قوتوں کے گملوں میں پرورش پا کر آئے ہیں اور تین سال سے آج دن تک غیر جمہوری اقدامات کر رہے ہیں اور آج تک انہوں نے کسی بھی غیر جمہوری اقدام پر معذرت نہیں کی میں ان سے اس عمل پر بھی معذرت کا طلب نہیں کرونگا-

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان اپوزیشن قائدین سے معافی منگوانا چاہتے ہیں تو انہوں نے رات کے دو بجے ایف آئی آر واپس لیکر تھوکا ہوا کیوں چاٹا ایف آئی آر واپس لینے کا مطلب یہی ہے کہ وہ غلط تھے-

سردار اختر مینگل نے کہا کہ افغانستان میں تبدیل ہوتے ہوئے حالات کے اثرات پاکستان اور بلوچستان پر نظر ماضی میں بھی افغان مہاجرین، طالبانائزیشن اور آج تک جو کچھ ملک میں ہورہا ہے اس کی شکل میں نظر آئے ہیں اب بھی وہاں جو کچھ ہورہا ہے اسکے اثرات ملک اور بلوچستان پر ضرور مرتب ہونگے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان اور ملک کی معیشت یا منفی تبدیلی حکمرانوں کی بلا سے انہیں جب تک ڈالر ملتے رہیں چاہے وہ مہاجرین یا انکی امداد کی شکل میں ہوں یا ٹریننگ کیمپ ہوں یا پھر 9/11کے بعد اپنے لوگوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کی شکل میں ہوں وہ معاوضے اور ڈالروں کے لئے ہر چیز کرنے کو تیار ہیں-

انہوں نے کہا کہ عوام کی تقدیر ہمیشہ انکے منتخب کردہ نمائندوں نے بدلی ہے کیونکہ انہیں احساس ہوتا ہے کہ انکی عوام کی ضروریات کیا ہیں-

اور وہ کن حالات میں مبتلا ہیں غیر منتخب لوگوں نے ترقی کے نام پر رشوت خوری کے علاوہ کچھ نہیں کیا تین سالوں کے دوران وزیراعلیٰ جام کمال خان کی ناک کے نیچے بھی یہی کچھ ہوا ہے گوادر کو سی پیک کا ممبا کہا جاتا ہے مگر ترقی ہوتی تو آج گوادر کے لوگ پینے کے پانی کے محتاج، ماہی گیر چینی یا دیگر غیر مقامی لوگوں کی ٹرالنگ کے ذریعے بے روزگارنہ ہوتے اور لوگوں سے انکی قیمتی زمینیں چھینی نہیں جا رہی ہوتیں، گوادر کے لوگوں کی ملازمتیں دوسرے صوبوں کے لوگوں کو نہیں دی جارہی ہوتیں گوادر کی ترقی کے نام پر استحصال ہورہا ہے-