بلوچستان: ریلوے ٹریک کی حفاظت کیلئے فورسز کا پچیس لاکھ روپے کا مطالبہ

171

سینیٹ کی حکومت کی انشورینس کمیٹی نے منگل کو بلوچستان میں سبی تا خوست سیکشن پر 134 کلومیٹر ریلوے ٹریک کی بحالی کے معاملے پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید، ایف سی (فورسز حکام) اور نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کے عہدیداروں کو منگل کو طلب کیا۔ کمیٹی نے وزارت قانون و انصاف اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھی نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کی بحالی کے لئے عمل میں تیزی لانے کی ہدایت کی۔

سینیٹر محمد طاہر بزنجو کی سربراہی میں پینل میں سبی-خوست سیکشن پر 134 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک کی بحالی کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ریلوے کے عہدیداروں نے کمیٹی کو بتایا کہ 2006 میں سات پلوں کو دھماکہ خیز مواد اور راکٹ حملوں سے اڑانے کے بعد ریلوے ٹریک پر آپریشن معطل کردیا گیا تھا، جس کے بعد سیلاب اور دیگر آفات سے مزید پانچ پل تباہ ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ این ایل سی کو پٹریوں کی بحالی کے لئے 2.11 ارب کا ٹھیکہ دیا گیا تھا اور مارچ 2016 میں کام شروع کیا گیا تھا جو مارچ 2018 میں مکمل ہونا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک پل کے علاوہ بحالی کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاملہ سیکورٹی وجوہات کے باعث زیر التوا ہے، اگر ایف سی اور لیویز تحفظ فراہم کرتے ہیں تو یہ کام 90 دن میں مکمل ہوجائے گا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ فرنٹیئر کور ٹریک کی سیکیورٹی کے لئے پچیس لاکھ روپے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس موقع پر سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ شیخ رشید نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ منصوبہ 18 مارچ تک مکمل ہوجائے گا لیکن اب تک یہ مکمل نہیں ہوا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ وہاں سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔

شیخ رشید نے کہا تھا کہ وہ سکیورٹی کے معاملے پر سدرن کمانڈ سے بات کریں گے۔ نجی کان کنی کے لئے سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے تو پھر اس کے لئے کیوں نہیں دی جاسکتی ہے۔

کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں وزیر ریلوے اور این ایل سی حکام کو طلب کیا ہے تاکہ منصوبے کی تکمیل میں درپیش مشکلات سے متعلق تفصیلات فراہم کی جائیں۔

خیال رہے گذشتہ سال کے اواخر میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کوئلے کی فی ٹن پیداوار پر سیکیورٹی محصول وصول کرتی ہیں جوسرکاری طور پر لاگو نہیں ہے اور یہ عمل کانوں کے مالکان اور مزدور یونینوں کی نظرمیں یہ بھتہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایچ آرسی پی سمجھتا ہے کہ فرنٹئرکورکی بہت بڑی تعداد کی بلوچستان میں موجودگی اور صوبے کے معاملات پر بہت زیادہ کنٹرول صوبائی حکومت اورسویلین انتظامیہ کے لیے شدید نقصان کا سبب ہے۔ تعلیمی اداروں جیسے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں سیکیورٹی اہلکاروں کی غیرضروری مداخلت اورمستقل موجودگی بھی ختم ہونی چاہیے۔