بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایمرجنسی اعلان صرف دھوکہ ہے۔بی ایس او آزاد

92

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ عسکری قوتوں کی حمایت سے وجود میں آنے والی حکومت کی جانب سے بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان بلوچ عوام سے ایک اور دھوکہ ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی شعبے میں بہتری کے لئے ایسا ہی ایک اعلان ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں بھی کیا گیا لیکن تعلیمی ایمرجنسی کے آڑ میں تعلیمی اداروں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کردیا گیا، تعلیمی اداروں میں چھاپے اور طلباء کے گمشدگیوں کے واقعات میں تیزی لائی گئی، کتابوں پر پابندی عائد کی گئی، لائبریریوں اور بک اسٹالوں سے ہزاروں کتابیں ظبط کیے گئے، طالب علموں کے تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کرنے کی کوشش کرکے عسکری اداروں کے نام نہاد منصوبوں کی تکمیل کی جاتی رہی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ نیشنل پارٹی کی حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرکے بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے اندر فوجی مارشل لاء لگا کر علم و شعور پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی۔ بلوچستان میں منشیات فروشوں کو طاقت فراہم کرکے بلوچ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور پاکستانی فوج کے ساتھ بلوچ نسل کشی میں براہ راست ملوث رہی ہیں اور آج یہی عناصر بلوچستان عوامی پارٹی کی شکل میں منظم ہو کر بلوچ نسل کشی میں مزید تیزی لانے کے کوشش کررہے ہیں۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچستان میں اسکولوں اور کالجوں میں تدریسی عملے کی غیر موجودگی اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی سے تعلیمی نظام کی ابتری عیاں ہوتی ہیں اور اب عسکری قوتوں کی نمائندہ حکومت کی جانب سے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایمرجنسی کا اعلان اس بات کا عندیہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں پہلے سے موجود عسکری مداخلت میں بےتحاشہ اضافہ کیا جائے گا۔