والد کے بعد بھائی کی جبری گمشدگی سے کرب کی زندگی گزار رہے ہیں – اسما بلوچ

216

آٹھ سالوں سے لاپتہ جمیل بلوچ اور گذشتہ ماہ پنجگور سے لاپتہ ہونے والے نجیب بلوچ کی بازیابی کے لئے آج کراچی پریس کلب کے سامنے قائم ایک روزہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کے بعد جمیل بلوچ کی بیٹی اور نجیب بلوچ کی ہمشیرہ اسماء بلوچ کی جانب سے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا گیا کہ میرے ابو جمیل رحمت کو ہمارے علاقے آواران سے فورسز نے میری آنکھوں کے سامنے آٹھ سال پہلے 29 اپریل 2013 کی صبح جبری طور پر اٹھا کر لاپتہ کر دیا، والد کی طویل جبری گمشدگی سے ہم پہلے سے ہی شدید اذیت اور کرب سے گزر رہے تھے کہ آج سے ایک مہینہ پہلے یعنی 11 اگست کو ایف سی نے میرے بھائی نجیب بلوچ کو پنجگور سے کراچی جاتے ہوئے رخشان کور صرادک چیک پوسٹ پر بس سے اتار کر NIC چیک کرنے کے بعد انہیں اپنے تحویل میں لے کر جبری لاپتہ کر دیا.

انہوں نے مزید کہاکہ میرا بھائی نجیب بلوچ گزشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں محنت مزدوری کرتے رہا ہیں، حالیہ دنوں وہ چھٹیاں منانے گھر آئے تھے، ابھی چھٹیاں ختم ہونے پر وہ واپس پنجگور سے کراچی اور وہاں سے امارات جانے والے تھے کہ اس کو جبری طور پر اٹھا کر لاپتہ کیا گیا،
اس سے پہلے میں اپنے والد کی بازیابی کیلئے احتجاج کرتی آرہی ہوں، ہم نے ابو کی بازیابی کیلئے آٹھ سالوں سے احتجاج کے تمام تر جمہوری اور آئینی طریقہ کار اختیار کیے، عدالتی نظام کو آزمایا، لکن بجائے اس کے کہ میرے ابو کو بازیاب کیا جاتا ابھی میرے بھائی کو بھی جبری لاپتہ کیا گیا، اپنے بھائی کی باحفاظت بازیابی کیلئے میں اپنی امی کے ساتھ کوئٹہ گئی ہوں، دو ہفتے تک بلوچ مسسنگ پرسنز کے کیمپ میں بیٹھے رہے ہیں، احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا ہے، سوشل میڈیا اور دیگر تمام ذرائع سے آواز اٹھاتی رہی ہوں، لیکن آج تک میرے بھائی اور ابو کا کوئی خیر خبر ہم تک نہیں پہنچا اور ایک مہینے گزرنے کے باوجود حکومتی اعلیٰ حکام کی طرف سے ہمیں کسی نے رابطہ تک نہیں کیا ہے –

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی فریاد لے کر پہلے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور آج یہاں کراچی آئے ہیں اور آپ حضرات کو بتاتا چلیں کہ اس سے پہلے بھی ہمارے خاندان کے اور لوگوں کو اس ظلم تسلسل کا شکار بنایا گیا ہے، ہمارے خاندان کو اجتماعی ظلم کا شکار بنایا جا رہا ہے، میرے والد اور اب میرے بھائی کو صرف اس بنیاد پر اٹھا کر لاپتہ کیا گیا کہ ہم ایک آزاد فضاء میں جینے کی بات کرتے ہیں. کیا ہمیں اپنے ہی زمین پر سکون سے جینے کا حق نہیں ہے؟ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ کیا اپنے ابو کیلئے آواز اٹھانا کوئی جرم تھا اور ہمیں اب اس کی سزا جرم میرے بھائی کو اٹھا کر دیا جا رہا ہے؟ ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو شدید ازیت میں جینا پڑ رہی ہے، میری بوڑھی اور بیمار امی بیٹے کے گمشدگی سے نڈھال ہیں، نا کھانا کھاتے ہیں نا بستر پہ سوتے ہیں اور کہتی رہتی ہیں کہ زندان میں میرا بیٹا کس حال میں ہوگا خدارا ہمیں اس شدید زہنی کیفیت سے نکالیں، ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ اگر میرے ابو یا بھائی نے کوئی جرم کیا ہے تو قانونی رستہ اپنا کر انہیں سزا دیجئے، لیکن اس طرح اٹھا کر سالوں غائب کرنا خود ایک غیر قانونی اور غیر انسانی عمل ہے.

انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ لوگوں کے انتہائی مشکور ہیں جو آپ لوگوں نے ہماری فریاد سنی اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہماری اس فریاد کو اپنے میڈیا ہاؤسز اور اخبارات میں کوریج دیں گے اور اس ظلم کے خلاف ہماری آواز بنیں گے اور ہماری عرض حکام بالا تک پہنچا دیں گے – اور میں یہاں پہ موجود انسانی حقوق تنظیم کے رہنماؤں کا بھی انتہائی مشکور ہوں جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا اور ہماری آواز بنے –