چار سو ڈالر کے لئے 10 ہزار پاکستانیوں نے اپنا اندراج بطور افغان مہاجر کردیا ہے

218

 پاکستان کی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ایسے 10ہزار پاکستانیوں کا سراغ لگایا ہے جنہوں نے امداد حاصل کرنے کے لیے اپنا اندراج افغان مہاجر کی حیثیت سے کروایا تھا۔

میڈیا رپورٹس  کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین نے رضاکارانہ واپسی کی اسکیم کے تحت اپنے آبائی وطن واپس جانے والے ہر افغان مہاجر کے لیے 400 ڈالر کی امدادی رقم مختص کررکھی ہے جو تقریباً 55 ہزار پاکستانی روپے کے لگ بھگ ہے۔

یہ انکشاف چیئرمین نادرا عثمان یوسف مبین نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں بلاک کیے جانے والے قومی شناختی کارڈز (سی این آئی سی) کے معاملے پر بریفنگ دیتے ہوئے کیا، اجلاس کی صدارت کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رحمٰن ملک نے کی۔

چیئرمین نادرا نے بتایا کہ جعلی شناخت کے یہ کیسز نادرا کے سسٹم نے اس وقت پکڑے جب کارڈز بلاک کیے جانے پر لوگوں نے نادرا سے شناختی کارڈ کے حصول کے لیے رابطہ کیا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ 5 اقسام کے شناختی کارڈ مشتبہ ہونے پر بلاک کیے گئے ہیں۔

چیئرمین نادرا نے مزید بتایا کہ رضاکارانہ واپسی اسکیم کے تحت تقریباً 10 لاکھ افغان مہاجرین افغانستان واپس جاچکے ہیں اور ہر جانے والے فرد، حتیٰ کہ نومولود کو بھی اقوامِ متحدہ کا ہائی کمیشن 400 ڈالر کی امدادی رقم فراہم کرتا ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں رہنے والے پختونوں کو نادرا کی جانب سے شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار پر یہ معاملہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر یعقوب خان نے سینیٹ میں اٹھایا تھا۔

کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین نادرا کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایک زمانے میں 24 لاکھ افغان مہاجرین رجسٹر تھے‘ جن کے علاوہ مزید 15 لاکھ غیر رجسٹر افغان بھی ملک میں رہائش پذیر تھے۔

انہوں نے بتایا کہ افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستانی خاندانوں سے تعلق ظاہر کر کے سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے قومی شناختی کارڈ حاصل کرلیے تھے۔

حالانکہ جن پاکستانی خاندانوں کا استعمال کیا گیا وہ خود بھی مشتبہ تھے تاہم کچھ حقیقی  خاندانوں نے بذاتِ خود انہیں اپنا حصہ ظاہر کر کے شناختی کارڈ کے حصول میں معانت کی۔

عثمان مبین کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ایک پارلیمانی کمیٹی نے ایسے پاکستانی، جن کی شناخت مشتبہ تھی، کی تصدیق کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا تھا جس کے تحت کی گئی قومی تصدیقی مہم کے دوران نادرا میں ایک لاکھ 65 ہزار مشتبہ کیسز سامنے آئے۔

مذکورہ پارلیمانی کمیٹی کی تجاویز کی روشنی میں حکومت نے حکم جاری کیا تھا کہ ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر اس قسم کے کیسز کی تصدیق کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کی سربراہی کرے گا، پارلیمانی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہر مشتبہ درخواست گزار کو تصدیق کے لیے 7 شناختی دستاویزات میں سے کم از کم ایک دستاویز متعلقہ ضلعی کمیٹی کے سامنے پیش کرنی ہوگی۔