کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

95

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5244 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر کوہ سلیمان تونسہ سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکنان محمد اشرف بزدار، جینیوا قیصرانی، ابو بکر بزدار بلوچ اور دیگر نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی کارکنان، طلبا اساتذہ، بزرگ، بچے ، خواتین سمیت ہر وہ فکر جو بلوچ کی حامی ہے ان کا جبری لاپتہ ہونا کوئی نئی بات تصور نہیں کی جاتی کیونکہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران جبری اغوا کی وارداتیں اتنی تیزی اور تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہی ہیں کہ اب تک ساٹھ ہزار سے زاہد کی رپورٹ مرتب کی گئی۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا شاید کوئی گوشہ نہ بچا ہو جہاں کسی بلوچ فرزند کو جبری اغوا کیا گیا نہ ہو، جبری اغوا افراد کے لواحقین گزشتہ کئی سالوں سے کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگا چکے ہیں لیکن نتائج بازیابی سے ہٹھ کر مسخ شدہ لاشوں کی انبار ہے۔ دشمن نے جبری لاپتہ افراد کی حراستی شہادت کے سلسلے کا باقائدہ آغاز کیا ہے جو بے دردی اور غیر انسانی تشدد کے ذریعے اسیران کے لاشیں پھینکنے کا گھناؤنا عمل کر رہے ہیں جن کے ہاتھ پاوں ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں جس میں ڈرل کی گئی آنکھیں نکالی گئیں اور کان ناک کٹے ہوئے ہوتے ہیں جسے دیکھ کر انسانیت کی سر شرم سے جھک جاتی ہے بلوچستان میں ایسا کوئی گھر نہیں جس میں کوئی فرزند خفیہ اداروں کی بھینٹ نہ چڑھا ہو۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کی اس انسانی المئے پر پوری دنیا خاموش تماشائی ہے بلوچ فرزندوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی راہ تکتے رہتے ہیں لیکن حراستی شہادت کے واقعات نے ان کے امیدوں کا دم گھونٹ دیا ہے انہیں سو فیصد یقین ہے کہ انکے پیاروں کی لاشیں انہیں ملیں گی کیونکہ دشمن سے انہیں یہی ایک توقع ہے اگر کوئی خفیہ اداروں کے عقوبت خانوں سے بچ کر بازیاب ہو جائے تو محض یہ ایک اتفاق ہوگا کیونکہ بہت سے جبری لاپتہ افراد کی مسخ لاشیں برآمد ہو گئیں ہیں۔