بانڑی کے نام کھلا خط ۔ وش دل بلوچ

638

بانڑی کے نام کھلا خط 

تحریر: وش دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بانڑی میں آپ سے دور کہیں سنگلاخ پہاڑوں کے کسی چوٹی پر بیٹھا ہوا آپ کے نام ایک کھلا خط لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں، میں دنیا اور بالخصوص ریاستی ستم زریفیوں کے خلاف بندوق ہاتھ میں تھمائے تشدد کا جواب پُرتشدد طریقے سے دینے کا عزم کرکے آزادی کے عظیم ڈگر پر نکل چکا ہوں تاکہ غلامی سے نجات ہو، استعماریت سے نجات ہو، زنگ آلود زنجیروں سے نجات ہو، میں امید کرتا ہوں کہ جنگ کے اس کٹھن راہ پر میرے لکھے اس خط میں تمام الفاظ آپ کو پُرحوصلہ، پُر فخر اور پُر فکر محسوس ہونگیں۔ ان لفظوں میں آپ کو مایوسی، تھکن، کمزوری اور بزدلی کہیں بھی دکھائی نہیں دینگی بلکہ ان لفظوں اور جہدوجہد کے مسلسل جاری سفر کے ہر پہلو میں آپ کو عاجزی، مخلصی، غرور و تکبر سے پاک، حساسیت اور تعمیر و ترقی دکھائی دے گی۔

بانڑی یہ راہ ہی ایسی ہے جہاں غرور و تکبر آنکھوں کی بینائی چھین لیتے ہیں اور عقل کی تمام راستوں کو ویران و مفلوج کرکے اسے ویران بستی کے کھنڈرات میں بدل دیتے ہیں یہ راستہ اُن کا کھوجا ہوا راستہ ہے جو ہنستے تو اُن کے آنکھوں میں سہتے ہوئے ظلم و ستم سے اُٹھتی ہوئی درد کی شدتِ تپش دکھائی دیتا تو اُن کو ٹھنڈا کرنے اُن کے آنکھیں اشکبار ہوتی لیکن پلکوں سے اُمڈنے کی اُن اشکوں میں سکت باقی نہیں رہتی وہ جل جل کر وہیں پر خشک ہوجاتے، یہ اُن وطن زادوں کی راہ ہے جنہوں نے اپنے سرداری شہرت کو جلاکر بھسم کرکے یہ پُرخار راستہ اپنایا، یہ اُن فلسفیوں کا چنا ہوا راستہ ہے جنہوں نے آخری گولی کے فلسفے کو بلوچ قوم کے باشعور جہدکاروں کیلئے متعارف کرایا، یہ راستہ ہزاروں بلوچ شہیدوں کے لہو سے کھینچا گیا وہ لکیر ہے جو عظیم مقصد پر نکلنے کی رہنمائی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، یہ وہی راہِ راست ہے جس کیلئے کئی بلوچ نوجوان عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ سہہ کر آخر کار مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں ہمیں ملے ہیں یا سالوں سے زندانوں میں قید ہیں، یہ وہ ڈگر ہے جس پر ہمیں بابا مری نے چلنا سکھایا جس کی منزل پر آزادی، خوشحالی، حسین و دلکش، پُرسکون، امتیازی سلوک سے پاک، مساوات کے اعلیٰ معیار پر قائم، جنت نما اور تمام ناروا و غیر انسانی رویوں سے آزاد دنیا ہے، میں بھی اسی آزاد وطن و قوم کے عظیم مقصد پر کاربند ہوں۔

بانڑی بیٹی ہم حالتِ جنگ میں ہیں جب یہ خط آپ کے سامنے رکھی ہوگی شاید میں اس عظیم مقصد میں ثابت قدم ہوکر اپنے لہو سے شہادت دے کر امر ہوچکا ہونگا کہ یہ سرزمین ہماری ہے اس پر صدیوں سے ہم ہی آباد تھے، ہمارے آباؤ و اجداد نے اس سرزمین کیلئے ہزاروں سر کٹوائے بڑے بڑے سامراجی قوتوں کو للکارا لیکن اپنے قومی بقاء و تشخص پر کسی قیمت پر بھی سمجھوتہ نہیں کئے آج ہم بھی اُنہیں کے نقش قدم پر ہتھیار ہاتھوں میں لئے برسرِ پیکار ہیں، تاکہ بلوچ قوم کے ہتھیائے گئے ریاست کی پھر سے بحالی ہو لیکن ابھی تک غاصبوں و قابضوں کا طاغوتی قوت اپنے زوروں پر ہے اور دوسری جانب بلوچ سرمچار سروں کا سودا لگائے برسرِ پیکار بھی ہیں یہ جنگ ابھی تک جاری ہے یہ جنگ ایک آزاد و خودمختیار، جمہوری و فلاحی ریاست ہوگی جہاں مساوات کا بول بالا ہوگا کوئی کسی کے نسل و نسب پر انگلی نہیں اُٹھائے گی نا ہی کوئی کسی کے مذہب پر بحث کرے گی ہر علم و آگاہی پر اکیڈمیاں ہونگی سب حقیقی آزادی سے آشنا ہونگے اور ترقی کی طرف گمزن ہونگے، یہاں دھرتی و ملت کے خادم ہونگے لیکن نوکروں والی زندگی کا تصور تک نہیں ہوگا اور جس عظیم ریاست کے بحالی کا ہم خواب اپنے پلکوں میں چھپائے رکھے ہیں جس میں اپنے قوم کو آزادی کے بعد تصوراتی طور پر ایک خوبصورت، پُرسکون، ترقی یافتہ، روشن، سبز و سیراب، صحت مند، ذہین اور روشن خیال ماحول مہیا کیا ہے اُس کی قیمت ایک میرے جان سے چُکتا نہیں ہو سکتا، اس کیلئے ہزاروں بلکہ لاکھوں مقدس لہو کا بہاؤ درکار ہے، اس مقصد نے تو شاری و سمو کو بھی ایثار کے مقدس راہ پر اُترنے کی شعور بخشی، حوصلہ دیا، ہمت دی اور ثابت قدم ہونے کی شرف عطا کردی، یہ وہ عظیم مقصد ہے جس نے انسانی بنیاد پر جنسی امتیاز کو یکسر خاک میں ملا دیا تاکہ ہماری قوم امتیازی سلوک جیسے موذی مرض سے شفا یاب ہو ایک صحت مند سماج کی تشکیل ہو اور بلوچستان دنیا میں ایک گلدستے کے مانند ہر پھول کو سمیٹ کر خوشبو بکھیرتا رہے اور ہر سو ہر سمت خوشحالی کا گیت و سنگیت ہو۔

لیکن..! بانڑی بیٹی آج ہمیں کہیں نہ کہیں جنسی بنیاد پر امتیازی و ناروا سلوک نظر آتے ہیں، روایتوں کی گھمبیر فراوانی نے ہمیں اس قدر اندھا بنا دیا ہے کہ اگر ہمیں چھوٹی سی بھی رواداری کی ملگجھی سی روشنی نظر آئے ہم اُس سے خوف محسوس کرتے ہیں کہ کہیں اس روشنی کے آنے سے ہماری روایات بکھر نہ جائیں، پدرسری کا جو بول بالا ہے اُس کی زوال نہ ہو، کہیں موجودہ وقت کے فیوڈل راج کا تختہ پلٹ نہ جائے، آج ان تمام روایتی تلخیوں سے ہوتا ہوا بلوچ تحریکِ آزادی نے جنس عورت کیلئے مسلح جنگ میں بس ایک “فدائی” کا راستہ کھول دیا ہے، لیکن ابھی تک مسلح صفوں میں ایک بڑی خلا ملتی ہے جسے دخترانِ بلوچ ہتھیار ہاتھوں میں لیکر محاذ پر اپنا عظیم کردار ادا کرکے پورا کر سکتے ہیں اور بلوچ قوم اس امر سے بھی خوب آشنا ہے کہ سرفیس سیاسی جدوجہد میں جو خلا باقی ہے اس کو بھی پورا بلوچ بیٹیاں ہی اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کرسکتے ہیں، لیکن یہاں پر بھی اگر گنے چنے کردار ہمیں نظر آتے ہیں وہ بھی جنسی بنیاد پر تنقید کے زد میں نظر آتے ہیں، بانڑی بیٹی اس ضمن میں تو ہمیں کوئی بھی ایسا راستہ نظر نہیں آتا کہ ان خلاؤں کو پورا کرنے کا بلوچ بیٹیوں کیلئے بہترین موقع ہو لیکن میں بلکل بھی قطع امید نہیں کیونکہ مجھے میرے بیٹی بانڑی پر امید ہے وہ کبھی بھی خود کو روایات کے مقید نہیں رکھے گی، بلوچ تہذیب کی پاسداری کرے گی، بوسیدہ رسومات کو اپنے جان کی بازی لگاکر چیلنج کرے گی، شعور و علم کی انتہا تک پہنچنے کی جستجو کرے گی، قوم و سرزمین کی اہمیت و افادیت کو سمجھے گی، کسی امتیازی سلوک پر سمجھوتہ نہیں کرے گی، جنسی بنیاد پر کبھی بھی مایوسی اختیار کرکے حقیقت سے درکنار نہیں ہوگی، میں دعویِٰ برجستہ ہوں آپ بانڑی ہی بن کر قوم کے تحفظ اپنے جان کی قیمت پر کرے گی اپنے علم و ہنر پر متحرک راستوں کا چناؤ کرے گی، سیاسی شعور سے لیس اور فلاسفہ بن کر اپنے قوم کی رہنمائی کرے گی، بانڑی میں آپ کو کبھی بھی یہ اصرار کرتا ہوا نظر نہیں آؤنگا کہ آپ ایک نیک اولاد بن کر بس اپنے ماں کی خدمت میں پوری زندگی صرف کردو آپ کو میں بلکل بھی جنت کے حصول کی عبادات پر تلقین کرتا ہوا نظر نہیں آؤنگا، اور نہ میں آپ کو بیٹی کہہ کر خاموش کرنے کی دلائل دیتا ہوا دکھائی دونگا، آپ کو شاید معلوم نہ ہو میں والدین کے خدمت میں شاید موقع نہیں ڈھونڈا نہ کہ میں نے اپنا جنت ماں کے پیروں تلے تلاش کیا میں باغی تھا ایسے سارے عقیدوں، رواجوں، رسموں اور روایتی احترام سے جو مجھے ہر لمحہ غلامی کا ہی تو احساس دلاتا رہتا تھا، میں اگر جنت کا متلاشی تھا تو وہ جنت میرے سرزمین کی آزادی و خوشحالی میں پوشیدہ تھا، میں اگر نیک اولاد کا روپ لیکر تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا تھا تو وہ صرف والدین کے خدمت سے نہیں قوم و راج کے خادم ہونے پر یہ اعزاز اپنے نام کرنا چاہتا تھا، بانڑی بیٹی میں یہ ہرگز نہیں کہونگا کہ آپ بھی بغاوت اسی انداز و طریقے سے کرو جس طرح میں نے کی آپ اپنے شعوری انتہا تک پہنچ کر اپنے زندگی کی آزاد فیصلوں کو اہمیت دینا نہ کہ آپ میرے اس دور کے حالات کا تقاضا سامنے رکھ کر اس ڈگر پر چلنا، آپ کے دور میں شاید ہمارے نظریات قدیم تصور ہوں شاید جدت ہماری دور کو تاریک بناکر پیش کرے اس لئے کبھی بھی آپ کو اپنے الفاظ میں تلقین کرتا ہوا نہیں دکھائی دونگا..

بانڑی بیٹی آپ جب عقل و شعور کے میدان میں اپنا قدم رکھوگی آپ کو میرے دور کا بلوچ بیٹی روایتوں میں مقید، رسموں کے آگے بے بس، تعلیم سے محروم، زہنی پسماندگی میں مبتلا، مذہبی پردے چادر و چار دیواری کی زینت جیسے نام نہاد احترام و عزت کے بھینٹ چڑھا ہوا نظر آئینگے، آپ سوچوگی اس دور کے کٹھن اور کانٹوں بھری راستوں پر شاری و سمو نکل کر اپنے تمام شعوری فیصلوں میں آزاد ہوکر قومی تحریک کو نئی رخ مہیا کرتے ہیں تو آپ یقیناً ان کی عملی کردار کو عظیم سے عظیم تر سمجھوگی، آپ میرے دور کے اس بلوچ بیٹی پر تب ماتم کناں نظر آؤگی جس کی جنم سے پہلے اُس کا رشتہ پہلے سے طے پایا ہے، آپ کے ماتھے پر مزاحمت کا پسینہ ہوگا جب آپ میرے دور کے بلوچ بیٹی کے متعلق جان جاؤگی جس کو خون بہا میں دےکر پھر اُس کے گھر کی چوکٹ پہ کسی رشتہ دار نے قدم تک نہیں رکھا، آپ کے آنکھوں میں آنسوں آکر پلکوں میں جل کر پتھر بن جائینگے جب میرے دور کے بلوچ بیٹی کو نام نہاد غیرت کے نام پر زندہ درگور کرنے کی وحشی داستان سنوگی، بانڑی بیٹی میرے دور میں بلوچ بیٹی کیلئے تمام راستے بند دکھائی دے رہے ہیں، آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ میرے دور کے بلوچ بیٹی ماہرنگ نے کتنے کرب ناک دور سے گزر کر پھر جاکر آزادی رائے کا حق موجودہ پدرانا سماج سے چھین لی ہے لیکن اپنے فیصلوں میں آج بھی آزاد دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ہمارے اندر برداشت کرنے کی صلاحیت ازل سے نہیں ہیں، بانڑی بیٹی نوشین و افشین نے تو اس دور کے فیوڈل لارڈ کو چیلنج کردیا ہیں آپ یقیناً میرے اس دور کو باغیوں کا دور ہی قرار دینگے جس کا آغاز ان بہادر بلوچ بیٹیوں نے کی، بانڑی بیٹی آپ کیلئے بہت سے راستے بلوچ بیٹیوں نے اپنے خون سے سینچ کر گزرے ہیں، بانک کریمہ آپ کو میرے دور کا وہ بانڑی دکھائی دےگی جس نے بلوچ قوم کو مزاحمت کی ہنر سکھائی چاکر و گہرام کے برادر کُش ادوار میں بلوچوں کے عظیم روایت و تہذیب کو اہمیت دی، اور ایسے بھی بہادر بلوچ بیٹیاں اس راہ پر اپنا کردار نبھائے ہیں جن کی کردار سے ہم خود کو جانتے ہوئے بھی اندھا رکھ چکے ہیں شاید یہاں بھی پدرانہ راج کا سوال ہے یا پھر نام نہاد غیرت و عزت کیلئے انہیں خطرہ سمجھ کر اُن کی عظیم کردار کو کبھی سامنے نہیں لاتے ہیں.

بانڑی بیٹی آپ کیلئے بھی شاید یہ چیلنجز آنے والے دور میں ہو سکتے ہیں، یہ دور تو بڑا ظالم گزرا اور گزر رہا ہے، ڈاکٹر ماہ رنگ بہت چھوٹی تھی تب کوئٹہ کے پریس کلبوں کے سامنے سراپا احتجاج تھی، کوئٹہ کے سڑکوں پر ایک معصوم بلوچ بیٹی روتی ہوئی ایک ہاتھ میں اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے کی پامفلیٹ دوسرے ہاتھ میں پتھر لئے آنسو گیس اور جلتے ہوئے ٹائروں کی سیاہ دھویں میں مزاحمت مزاحمت کہتی ہوئی دکھائی دیتی تھی، وہ ماہ رنگ جب میڈیا پر آکر اپنے والد کے لاپتہ ہونے کی کہانی سناتی ہے تو آنکھوں سے بہتے آنسوؤں میں ایسے درد بھری داستان دکھائی دیتی ہے جیسے میرگھٹ و مولہ چھٹوک کے آپشاروں میں بابو نوروز کے جدائی کا قصہ سنائی دیتا ہے، یہ وہی ماہ رنگ ہے بانڑی بیٹی جس نے کبھی سکون نہیں دیکھی، پریس کلبوں کے آگے احتجاجی مظاہروں میں بلوچ لاپتہ افراد کے غم میں برابر کے شریک دکھائی دیتی رہی ہے اور اب بھی دکھائی دے رہی ہے، ماہ رنگ جن المناکیوں سے گزر کر آج قوم کی رہشونی کر رہی ہے شاید آپ اس کی تصور تک نہیں کر سکتی، ہوسکتا ہے آنے والا وقت چیزوں کو متنازعہ کر دے لیکن آج کے موجودہ حالات میں یہ ماہ رنگ ہی ہے جس نے سارے الزاموں اور تہمتوں کو یکسر نظرانداز کرکے بلوچوں کے مسخ شدہ لاشوں پر کسی کو سیاست کرنے نہیں دیتی، کمٹمنٹ میں مضبوط، جراّت مند و نڈر بہادر ماہ رنگ آج وہ خلاؤں کا بھرپائی کر رہی ہے جو برسوں ہوئے کسی سے بھرا نہ جا سکا، ماہ رنگ کراچی کے سڑکوں پر روتی ہوئی یہ وہی بچی ہے جسے آپ کے سرداروں نے نام نہاد غیرت و عزت کا طعانہ دے کر خاموش کرنے کی ناکام کوششیں کی، کسی نے نشے کی الزام دی کسی نے اس پر نازیبا الفاظ کسے، کسی نے اپنا فیوڈل کلیجہ ٹھنڈا کیا تو کسی نے پاگل قرار دی لیکن ماہ رنگ ڈٹی رہی اور سب کچھ نظرانداز کرکے خود کو قومی نظریے میں پیوست کرکے نکل پڑی آج وہ ہمارا رہبر ہے رہشون و رہنما ہے، بانڑی میں یہ نہیں کہونگا آپ فلسطین کے لیلیٰ خالد کو پڑھو اور نا ہی یہ کہونگا کہ آپ روزالکسمبرگ کی نظریات اپناؤ بس اتنا ہی کہونگا کہ آپ بلوچستان کو پڑھنا، بلوچ کو پڑھنا، گل بی بی، بانڑی، ماہناز، کریمہ، سمو، شاری اور ماہ رنگ کو پڑھنا اُن بلوچ بہنوں کو پڑھنا جن کی مقصد، فکر و نظریہ میرے اور بلوچ قوم کے فکر و مقصد سے مختلف نہ ہوں ایک شاعر کا شعر ہیکہ “کوئی اُمید بر نہیں آتی” لیکن ہمیں آپ پر اور آنے والے نسلوں پر اُمید ہے کہ ہماری اُمید بر آئیگی..


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔