افسانہ | میرے زیست کو عنوان دو – (پہلی قسط) – وش دل بلوچ

265

افسانہ | میرے زیست کو عنوان دو
(پہلی قسط)

تحریر: وش دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بہت سوچا کئی سال کئی دن کئی رات اس بات پر سر کھپائے، کئی اوقات بار بار اسی کشمکش میں رہا کہ خود کی آپ بیتی پر قلم آزمائی کروں کہ نہیں، سالوں بیت گئے میری آپ بیتی میں اضافہ ہوتا گیا مگر میں اس کی شروعات صفحہِ قرطاس پر نہیں کر پایا، دن بدن زیست میں تلخیاں بڑھتی رہی سختی و سوریوں کی انبار، غلامی کی بڑھتی ہوئی دلدل، غلامی کا برسوں سے لگا داغ کا گہرا دھبا، معاشرے کی ذلت، گھٹن زدہ ماحول کا سامنا، فرسودہ روایات کی بے دردی سے معصوم انسانوں پر وار، رسم و رواج کے آگے تسلیمِ خم و بُلند سروں کی کہانیاں، سرداری و سرکاری مشینری کے سہارے پر پڑے ہوئے لوگ اور نہ جانے کتنے ذلت آمیز دور کو دیکھتا گذرتا آج یہ فیصلہ کر لیا کہ خود پر چار لفظ لکھوں اپنے گذرے چند لمحوں پر نوشت کروں، میں اپنے لئے ایک جیتا جاگتا حقیقت ہی سہی شاید چار لوگوں کیلئے میں ایک کہانی بن جاؤں جو اسے چار جگہوں پر بھی سنا دیں تو میرا وجود ہمیشہ کیلئے کتابوں میں کم از کم زندہ رہے گی، بقول ایک دانشور کہ “ہم خود پر ضرور لکھیں ہمارے لکھی ہوئی کتاب ہو یا تحریر کوئی بھی پڑھ کر اس کا کردار بھلا سکتا ہے مگر اسکی کہانی اُس کے ذہن میں ہمیشہ کیلئے نقش کر دیتا ہے۔” مطلب ہم سب کہانی ہی تو ہیں آنے والے نسلیں کہانی سمجھ کر ہمیں اگر پڑھ لینگے تو ہم بھی ان کے ذہنوں میں نقش بن کر ہر جگہ موجود ہونگے، لہٰذا خود کی بیتی لکھو تاکہ آپ بنا آبِ حیات پیئے صدیوں تک جیو حقیقت نہ سہی کہانی ہی بن کر امر ہوجاؤ۔

میں نے بہت بار سوچا اور کئی دفعہ سر پر گھنٹی بجاتا رہا کہ اگر میں اپنی سرگزشت لکھنا شروع کروں تو عنوان کیا ہونا چاہیئے؟ ادھر اُدھر کافی کوششیں کی لیکن ایسا کوئی عنوان نہ ملا کہ میں اپنے آپ بیتی کیلئے منتخب کر سکوں پھر دماغ کے جہان میں کود پڑا تاکہ الفاظ کا ذخیرہ یہاں موجود ہو شاید میرے برسوں کا تلاش مکمل ہو، جب میں دماغ کے اندر پہنچا تو وہاں کئی طرح کے عنوانوں نے انگلیاں کھڑی کردی، ان میں چند رہشون صفت تھے، چند عشقیہ اور گنتی میں آئے چند مختلف آرا رکھنے والے، مگر ان میں کچھ اتنے نڈھال تھے کہ وہ ہاتھ اوپر کرنے کے سکت ہی نہیں رکھتے تھے ان میں زیادہ تر بیمار اور کمزور تھے کھانستے ہوئے بھی انہیں اپنے منہ پر ہاتھ رکھنے کے بجائے اپنے پیٹ کے درد کو سمیٹنے کی کوشش کرنا پڑتا اور چند ان میں ایسے بھی تھے جو مجھ سے اپنا چہرہ کچھ اس طرح چھپاتے جیسے کسی کلاس میں ایک نالائق طالب علم خود کو استاد کے نظروں سے ناکام اوجھل رکھنے کی کوشش کرتا ہو اور ان میں اکثر ایسے عنوان بھی تھے جن کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیر نہ ہوتے ہوئے بھی غلاموں کی سی حرکات و سکنات ظاہر کرتے تھے اور ایک غلام میرے زندگی کے کہانی پر انگلی کیوں کھڑا کرکے کہے کہ میرا نام ہی رکھ لو وہ تو خود کی زندگی کو اللہ کا عذاب سمجھ بیٹھے تھے ہر ظالم و جابر کا عمل انہیں خدا کا دین لگتا تھا وہ اس عنوانوں کے بھیڑ میں عنوان تو تھے مگر اپنے اہمیت سے ناآشنا اپنی وقار سے بےخبر اور خوف کے عالم میں سرخم ہاتھ بندھے ہوئے کسی آسیب میں گم نظر آتے تھے مجھے یہی عنوانات متاثر کُن محسوس ہونے لگیں سوچا انہی میں سے ایک کو اپنے زیست کا عنوان بناکر آگے بڑھتا ہوں لیکن پھر رکاوٹیں پھر سے مشکلات کا انبار پھر نئی صبح کی نوید پھر سے ایک نئی ہلچل مچاتی دنیا کا منظر پھر ایک نئی کیفیت سامنے آجاتا ہے میرا عنوان بدلنے کا ارادہ بن جاتا ہے، پھر سے دماغ کی ایڈیٹوریم میں پہنچ جاتا ہوں بہت بڑی تعداد ہے عنوانات کی بڑے ترتیب سے ایک اعلیٰ اور شاندار و خوبصورت روشن جگہ ہے سب میرے سامنے ایسے اُٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں جیسے میں کائنات کا سارا فلسفہ لپیٹ کر چلتا ہوں اور بغل میں دبی یہ کتابیں ان کی ضمانت دیتے ہیں اسی بنا پر سب مجھے بہت احترام سے دیکھتے ہیں اور شرف بخشتے ہیں حالانکہ یہ ایک سچ ہے “ہر کوئی اپنے دماغ کا عظیم فلسفی ہوتا ہے” جب میں اس بڑی تعداد کے پاس پہنچ جاتا ہوں محض اس غرض سے کہ ان میں سے کسی کا نام اپنے زندگی پر لکھی الفاظوں پر عنوان منتخب کر لوں، تو یہاں اس عالی شان جگہے میں بھی کئی کونوں پر تاریکی مجھے نظر آتے ہیں ان تاریکیوں میں موجود عنوانات عجیب قسم کے ہیں چہرے پر وحشت، منہ پر خون، آنکھوں میں ایک ایسی کہانی جو آسیبوں پر لکھی گئی ہو لاکھ کوششوں کے باوجود اس کو پڑھا نہ جا سکے، اور اسی بڑی تعداد میں چند ایسے بھی عنوانات ہیں جو رہشون و رہبرو والا انداز لئے ایسے کھڑے ہیں جیسے وہ خود کا نہیں بلکہ ان سب کا قیادت سنبھالے ہوئے ہیں ان کے حق و حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا ٹھان کر مجھ سے مخاطب ہونا چاہتے ہیں لیکن ایسے چند عنوانات کے ہاتھ کھڑے نہیں تھے یہ حیران کُن تھا میرے لئے اب میرے لئے عنوان چننا مزید پیچیدگی اختیار کرتا جارہا ہے، میں روز اس بڑی تعداد میں قدم جماتا ہوں تو پھر سے نئے عنوانات کی نئے چہرے دیکھ کر عنوان منتخب نہیں کرپاتا، لیکن میں پھر بھی اُس اکثریت سے متاثر ہوں جو بنا زنجیروں میں سر خم خود کو پھر بھی جکڑے ہوئے اور خدا کے عذاب میں مبتلا سمجھتے ہیں۔

مجھے میرے الفاظ بہت عزیز ہوتے ہیں چاہے میں ان کو جس زبان میں لکھ دوں مجھے دنیا کی ساری زبانوں سے محبت ہے یہ لسانی نفرت ہم اس بنیاد پر اور اس لئے نہ کریں کہ میرا حقوق سلب کرنے والا بھی کوئی نہ کوئی زبان بولتا یا بولتی ہے بلکہ ہمیں اس لئے لسانی نفرتوں کو بڑھاوا دینے سے قاصر رہنا چاہیئے تاکہ ہماری زبان کو بھی دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاسکے، میرے الفاظ مجھے بہت محبوب ہیں ان کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے، میرے دماغ کے ایڈیٹوریم میں موجود عنوانات بھی ان ہی سے ہیں لیکن اب مجھے عنوان کا چناؤ کرنا ہے تو ان میں ہر طرح کے مختلف اور عجیب قسم کے ملنے لگے ہیں اور ہر زبان میں بھی یہاں پائے جاتے ہیں میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ دن رات ہر پل ہر لمحہ اور کئی سالوں سے اس عنوان کو تلاش نہ کرسکا الجھنوں میں رہا اور سبب کیا تھے وہ بھی مذکورہ رہ چکے ہیں، ایک دن میں نے پھر وہاں قدم رکھا فلم شوٹنگ میں اچانک لائٹ آن اور ایکشن والے منظر کے بعد سب اٹھ کھڑے ہوئے لیڈر صفت چند عنوانات نے دہرایا کہ ابھی تک مناسب نام نہیں ملا تجھے؟ کہ آپ کی تلاش اختتام ہو؟ میں نے مسکراتے ہوئے بس اتنا کہا مل جائے گا کیونکہ ابھی تک کچھ ہاتھ کھڑے نہیں ہوئے ہیں میں شاید اُن کا منتظر ہوں، ان میں سے ایک نے اپنا سر ہلایا اور مسکراتے ہوئے کہا “بہت خوب” اتنے میں میری نظر چار لڑکیوں پر پڑی ان میں سے تین لڑکیوں نے ان سب کو نظر انداز کرلیا تھا اپنی دنیا میں مگن تھیں اور اپنے نام سلیکشن کیلئے دینے سے بالکل لاتعلقی سی کیفیت بنالیا تھا لیکن ان میں سے ایک تھی جو اپنا سر ہاتھ پہ ٹیک دےکر سارا منظر دیکھ رہی تھی لیکن ہاتھ اس نے بھی کھڑی نہیں کی تھی شاید وہ یہ سارا منظر کئی دنوں کئی مہینوں یا کئی سالوں سے دیکھ رہی تھی کہ مجھے ان سب کے ناموں سے ایک نام اپنے زندگی پر لکھی تحریر یا کتاب کیلئے ضرورت ہے میں اُس سے مخاطب ہوا لیکن وہ نظریں جمائے بیٹھی ہوئی تھی جیسے اُس سے کوئی مخاطب نہیں، میں نے پھر سے آواز دی تو وہ بیدار ہوگئی میں نے کہا کیا آپ اپنا نام سلیکشن لسٹ میں ڈالنا نہیں چاہوگی؟ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ بول نہیں پائی شاید گنگی تھی نہیں ایسا تو نہیں ہوسکتا دماغ کے دنیا میں کوئی گنگ نہیں رہتا دماغ تو ہر وقت بولتی رہتی ہے اور دماغ کا زبان ان سب پر ہی تو مشتمل ہے، شاید وہ گھبرائی ہوئی تھی میں اور کچھ نہ کہتے ہوئے کسی اور طرف اپنی نگاہ گھمائی اور سب پر نظر ڈالنے کے بعد میں واپس ہو لیا۔

وہ عنوان جس کا انداز رہشون والا ہے اُس نے میری بات پر مسکراتا ہوا “بہت خوب” کیوں کہا؟ میں اب خود سے سوال کر رہا ہوں ایسا کیا تھا میرے ادا کی ہوئی الفاظ میں، کافی سوچنے کے بعد میں عنوان سلیکشن سے خود کو بھٹکا دیا اور اپنی باقی کاموں میں لگ گیا، یہ میرا روز کا معمول بن چکا تھا روز انٹری روز ایگزیکٹ ہوجانا مگر عنوان منتخب کرنا مزید پیچیدہ مسئلے کا روپ اختیار کر رہا ہے، ہر روز انٹری کرتا ہوں تو ایک تعداد ایسی ضرور ملتی ہے جو بالکل نئی ہیں ایسا لگتا ہے کوئی لافانی ایک طاقت ان سب کے پیچھے موجود ہے روز نئی چہرے سامنے لے آتا ہے جیسے میں کسی کپڑے کے دکان سے خریداری کر رہا ہوں اور دکان دار ہر تھان کو کھول کر فرش پر پھینک دیتا ہے “یہ دیکھو یہ پسند نہیں آیا تو دوسرا دکھاتا ہوں” ہر روز کی اس بڑھتی ہوئی تعداد نے مجھے سالوں تک آگے بڑھنے ہی نہیں دیا، میں کبھی کبھی ہفتہ دو ہفتہ تک دماغ میں عنوان سلیکشن کے غرض سے انٹری نہیں کرتا تھا لیکن باہر رہ کر اس بارے سوچتا ضرور تھا کہ ان میں سے کس کی نام میرے زندگی کے موضوع پر بہتر اور پراہمیت یا کشش رکھنے کے قابل رہے گا۔

ایک دن میں نے ٹھان لیا کہ عنوانات کے ساتھ ایک مکالمہ کا دور ہی شروع کر دینا چاہیئے شاید وہ ہی ایک عنوان کو میرے سرگزشت کیلئے پیش کر دیں، میں نے اس دفعہ اپنا حُلیہ کچھ بدل دیا ملنگوں سی حالت بالوں کو بے ترتیب داڑھی کو لمبا چھوڑ کر نڈھال سی کیفیت لیکر دماغ کے ایڈیٹوریم میں انٹری مار دی سب اُٹھ کھڑے ہوئے لیکن راہشون صفت عنوانات نہیں اُٹھیں، وہی کے وہی بیٹھے مسکراہٹ کے ساتھ سارا منظر دیکھ رہے تھے، میں پھر الجھنوں میں چلا گیا کہ اب تو حُلیہ بھی بدل دی پھر بھی ان پر کوئی اثر تک نہیں ہوا شاید میں ان کیلئے ناکام اور مایوس انسان تھا اُن کی یہ حرکات مجھے میرے کمزوریوں کا اشارہ دے رہے تھے خیر یہ اُن کا اپنا دیکھنے سوچنے پرکھنے کا زاویہ ہوگا، میں جاکر کُرسی پر بیٹھ گیا اور سب عنوانات بھی ساتھ میں بیٹھ گئے، اور جو اُٹھ کھڑے نہیں ہوسکتے تھے جن کے بدن میں سکت نہیں ہوتا تھا وہ محض اپنا اُنگلی اُٹھا کر میرا احترام کرنے کا تاثر دیتے تھے، میں خاموش بیٹھا اپنے انگلیوں کو آپس میں جوڑ توڑ کر سر نیچے سوچ رہا تھا کہ رہشون صفت عنوانوں سے ایک نے سوال کر دی کہ کیا بات ہے؟ آج ملنگوں سی حُلیہ لیکر ہمارے یہاں آئے ہو؟ یہ سوچ کر تو نہیں آئے ہو کہ ہم میں کوئی پیر مریدی والا عنوان ہوگا آپ کا حُلیہ دیکھ کر آکر آپ کے پیروں کے قریب بیٹھ کر کہیں گا کہ آپ مُرشد آپ سائیں آپ میرا نام عنوان کیلئے لیلو مجھے شرف بخشو، اگر آپ کا ارادہ یہی ہے تو آپ پہلے کی طرح آج بھی ناکام جاؤگے کوئی عنوان نہیں ملےگا کیونکہ یہ الگ دنیا ہے اس دنیا اور آپ کے بیرونی دنیا میں آسمان و زمین کا فرق ہے یہاں وہ دنیا بسی ہے جو آپ کے باہر کی دنیا میں بالکل بھی دکھائی نہیں دیتا، یہاں وہ معمول ہے جس کا آپ تصور تک نہیں کرسکتا، یہاں سُقراط ہے، افلاطون ہے، ارسطو ہے جو آپ کیلئے چوبیس سو سال پُرانی دنیا ہے جبکہ آپ کے یہاں سے جانے کے بعد ہم جو رہشون صفت عنوانات ہیں بالکل مختلف حُلیہ لیکر ان تین ہستیوں کے دربار میں پیش ہوجاتے ہیں، آپ کو اب یہ جاننا چاہیئے کہ ہم پر یہ اُمید بالکل نہ رکھے کہ ہم آپ کو اپنا نام یا کسی دوسرے کا نام آپ کے سرگزشت کیلئے منتخب کرنے کا صلاح یا مشورہ دینگے کیونکہ ہم اُس فلسفی کے شاگرد ہیں جس کا شاگرد افلاطون ہے جس کو ہم اپنا اُستاد مانتے ہیں، جبکہ ہم یہ محدود تعداد جو آپ کو رہشون صفت لگتے ہیں ہم سب وہی کم تعداد ہے جسے افلاطون نے جمہوریت کیلئے چُنا ہے تاکہ ہم دانشمندی کے ہُنر سے اس نظام کو بحالی کا علم سیکھیں، لیکن اب ہم اور افلاطون اسی بات پر آکر اڑ جاتے ہیں اور پھر سے سوچنے کا ماحول بناتے ہیں آج تک نتیجہ خیز منزل تک پہچ نہیں پائے ہیں کہ ہم سب کا اُستاد سُقراط اب بھی یہی دہراتا ہوا نظر آتا ہے کہ “میں اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا” اُستاد کے یہی چار الفاظ ہمیں ہر وقت سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں ہم اور اُستاد افلاطون و ارسطو مل کر ان پر سوچتے ہیں کہ اب تک ہم کچھ نہیں جانتے، لہٰذا ہم سے امید نہ رکھیں کیونکہ ہم اتنا جانتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتیں”

اچانک ایک لڑکی کی آواز میرے کانوں پر پڑی جو کہہ رہی تھی یہی وہ ساری باتیں تھی جو میں آپ کو بتانا چاہتی تھی مگر اتنا واضح اور اچھی انداز میں آپ کو بتانے کی ہنر میرے پاس نہیں تھی سو خاموش رہی، میں دیکھتا کیا ہوں کہ یہ وہی لڑکی ہے جسے میں گنگی بہری سمجھا تھا، واقعی کہ دماغ کی دنیا میں کوئی گنگی بہری نہیں ہوتی ان سب پر تو دماغ مشتمل ہے، خیر میں اس عنوان جو لڑکی تھی اسکی باتیں سُن کر اور بھی خاموشی کی دنیا میں جا گرا جس میں مجھے رہشون صفت عنوان نے فلسفانہ باتیں کہہ کر دھکیل دیا تھا، میں اپنے حُلیے پر ایک نظر ڈال کر دیکھا اور پھر رہشون صفت عنوان پر نظر ڈالا واضح فرق مجھ میں اور اُس میں موجود تھا، میں پھر سے اُس سے مخاطب ہوکر کہا کیا سُقراط کے دربار میں آپ سب اس حالت میں اس حُلیے میں جاتے ہیں جس میں آج میں ہوں؟

کہنے لگا نہیں اور بھی مختلف حلیہ لیکر جاتے ہیں جس میں سُقراط کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ علم سیکھنے آتے ہیں نمود و نمائش کے گرفت میں بالکل نہیں جبکہ آپ اپنا حُلیہ بدل کر اس لئے آئے ہو کہ نمود نمائش ملنگوں سی ہو آپ پر ہم سب ترس کھائیں یا آپ کو اپنا مُرشد مان کر ایک عنوان حوالے کردیں ایسا بالکل نہیں ہوگا یہ آپ کی کم فہمی ہے اس طرح آپ کو یہاں سے کچھ بھی نہیں ملنے والا، تو میں نے سوال کرنے کا ٹھان لیا کہ ٹھیک ہے میں مانتا ہوں میں اپنی کام کے غرض سے یہ حُلیہ بناکر آیا تاکہ ویسا ہی ہو جیسے آپ نے کہہ دیا لیکن آپ ایسے بن سنور کر شان ٹھاٹ کے ساتھ ان عنوانات کے درمیان کیوں آتے ہیں جبکہ سُقراط کے سامنے آپ الگ حُلیہ بناکر جاتے ہیں، مُسکراتے ہوئے وہ سب کھڑے ہو جاتے ہیں وہ لڑکی بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے جسے میں نے گنگی تصور کیا تھا، رہشون صفت رہشون عنوان یہ کہہ کر چل دیتا ہے کہ کہ سُقراط کے صحبت میں جانا ہے اگلی دفعہ آپ کو یہ ساری باتیں بتا دونگا کہ ایسا کیوں ہے اور وہ چل دیتے ہیں وہ لڑکی بھی ان کے ساتھ روانہ ہو جاتی ہے میں پوچھ لیتا ہوں کہ آپ ان کے ساتھ کیوں جا رہی ہو آپ تو ان کے جیسا بن سنور ٹھان شان سی حُلیے میں یہاں نہیں ہوتی ہو، ہنستی مُسکراتی ہوئی کہتی ہے اگلی دفعہ جب آؤگی تو میں بھی دوسرے رہشون صفت عنوانات کی طرح اپنی اس حُلیے کا آپ کو بتا دونگی، یہی کہہ کر وہ بھی ان سب کے ساتھ چلی جاتی ہے، میں باقی عنوانات کے سامنے بیٹھا ہوا سب پر ایک نظر ڈال دیتا ہوں پھر نکل آتا ہوں۔

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔