اسلام آباد میں بلوچ دھرنا ختم کرنے کا اعلان؛ دنیا تک اپنی بات پہنچا دی، کوئٹہ میں جلسہ منعقد ہوگا – ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

671

 اسلام آباد میں بلوچ نسل کشی کے خلاف دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ ریاست، عدلیہ، میڈیا، وفاقی جماعتوں، نام نہاد صحافیوں اور دانشوروں کے بلوچ مخالف رویوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے اور بلوچ قوم کے ساتھ مروجہ دشمنی کو تسلیم کرتے ہوئے ہم اپنے اسلام آباد دھرنے کے اختتام کا اعلان کرتے ہیں۔

دھرنا منتظمین نے احتجاجی تحریک کے پانچویں دور کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تحریک کے پانچویں مرحلے میں 27 جنوری کو کوئٹہ میں جلسے کا انعقاد کیا جائیگا۔

​​اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری تحریک کا آج 61 واں دن ہے ۔ تربت میں بالاچ بلوچ کی ماروائے عدالت قتل کے خلاف شروع ہونے والی یہ تحریک آج پورے بلوچستان میں ریاستی ظلم، جبر اور بربریت کے خلاف ایک منظم تحریک بن چکی ہے اور حوصلہ افزاء امر یہ ہے کہ یہ تحریک پورے خطے کے مظلوم عوام کے  لیے امید و حوصلہ کا سبب بن چکی ہے۔  اور اس  تحریک کو پورے خطے کے مظلوم عوام کی حمایت و مدد حاصل ہے۔ ظلم اور جبر کے خلاف ابھرنے والی یہ پرامن تحریک جس نے تربت سے اسلام آباد تک ایک پتھر بھی کسی کو نہیں مارا، وہ اپنے آغاز سے ہی ریاستی تشدد اور مظالم کا شکار رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات آپ صحافی حضرات سمیت پوری دنیا کے لیے اس حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ریاست گزشتہ 75 سالوں سے بلوچستان پر  ایک کالونی کے طرز پر حکمرانی کر رہی ہے۔ جہاں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں اور ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ڈیتھ اسکواڈز کے ظلم سے آج بلوچ کا ہر گھر متاثر ہے۔ آج آپ صحافی حضرات سمیت ہر ذی شعور انسان اس بات پر بحث کررہا ہے کہ جب یہ ریاست اپنے دارالحکومت اسلام آباد میں  ہزاروں کیمروں، انسانی حقوق کے تنظیم اورصحافیوں کی موجودگی میں بلوچ  خواتین و بچوں پر مشتمل ایک پر امن دھرنے کو چاروں طرف سے خاردار تاروں سے بند کرکے ہر روز دھمکی، ہراسگی، پرافائلنگ اور تشدد جیسے سنگین اقدامات سے دبانے کی کوشش کررہی ہے تو اسلام آباد سے ہزاروں کلومیٹر دور بلوچستان کے دور افتاد علاقوں میں ریاست کا رویہ بلوچوں کے ساتھ کیسا ہوگا۔ وہ گاؤں جہاں انٹرنیٹ تو دور بجلی بھی نہیں ہے تو وہاں ریاست بلوچ نوجوانوں، بلوچ عوام پر کس قدر ظلم کرتا ہوگا۔ جہاں پر ایک عام سپاہی، ایک عام ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کا کارندہ اپنا قانون بنا کر لوگوں کو سرِ عام قتل اور اغوا کرسکتے ہیں۔

“جہاں پر آئین، قانون، سزا جزا سب کچھ سیکیورٹی ادارے ہی متعین کرتے ہیں، اس جنگل کے قانون میں ہمارے ہر طبقہ کے لوگ متاثر ہیں۔ بی وائی سی شروع دن سے کسی بھی غیر انسانی عمل کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا رہا ہے اور ہم یہ عہد کر چکے ہیں کہ بلوچ قوم  کے ساتھ ساتھ اس خطے میں کسی بھی غیر انسانی عمل اور ریاستی مظالم کے خلاف مزاحمت کو مزید توانا کریں گے اور عوامی قوت کے ساتھ اس ریاستی درندگی کے خاتمے تک اس خطے کے ساتھ ساتھ ساتھ دنیا میں بسنے والے انسان دوست لوگوں کو متحرک کرنے میں اپنی پوری توانائی کو بروئے کار لا کر ان درندہ سفت اور باربیرک قوتوں کو انسان بنانے تک جاری و ساری رہے گا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ وہ دن دور نہیں جب اس خطے کے مظلوم لوگ کسی بھی غیر انسانی عمل کے خلاف یکجا ہو کر ان پُر تشدد اور باربیرک اداروں کا احتساب کرینگے ۔ تم تیر آزمائوں ہم جگر آزمائیں گے۔   ریاستی اداروں اور سربراہوں کی طرف سے بلوچستان کی پوری آبادی کو ‘دہشت گرد’  قرار دے کر ریاستی اداروں نے پوری بلوچ قوم کو واضح پیغام دیا ہے کہ انہیں صرف بلوچستان کے ریسورسز اور زمین سے غرض ہے اور اس زمین پر بسنے والے لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن ہم یہاں واضح کر دیں کہ ہمارے لئے ہماری زمین پر ایک چیونٹی بھی عزیز ہے اور ایک انسان اور بلوچ کی جان کی قدر تو بہت بڑی ہے، اور انکی جان و مال کی حفاظت، اس پر ہر ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہمارا ایمان بن چکا ہے، جس کو کوئی بھی قوت کمزور نہیں کر سکتی۔

“جبکہ آپ لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ یہ ریاست نہ صرف پرتشدد اقدمات کے ذریعے مظلوموں کے آواز کو دبانے کی کوشش کرتی آرہی ہے بلکہ میڈیا اور اپنے صحافی نما ایجنٹوں کے ذریعے پروپیگنڈہ کرکے کس طرح جھوٹا بیانیہ بناتی ہے اور کس طرح اپنے مظالم کو چھپانے کے لیے جھوٹا بیانیہ بنانے  کی جنگ لڑرہی ہے۔ جو مظلوم لوگوں کے حقیقی مسئلوں سے رو گردانی اور انکی سنجیدہ حل کے بجائے اپنے جھوٹے بیانیہ سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ لیکن مظلوم لوگ اپنے حقیقی مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور وہ اپنے خطے میں اس جنگل کے قانون کو ختم کرنے کیلئے متحرک ہو چکے ہیں۔ ہمارے اس تحریک کا مقصد ہی یہیں تھا کہ ہم یہاں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو اس ریاست اور اسکے اداروں کی مظلوم اقوام اور خاص کر بلوچ قوم پر ہونے والے پرتشدد اور تعصبانہ رویے کو دیکھائیں جو ہماری اس پر امن تحریک نے واضح کرکے دنیا کو دکھا دی۔ اگر اب بھی دنیا کے انسان دوست لوگ اور ادارے خاص کر یونائیٹڈ نیشنز اور یوریی یونین ان ریاستی مظالم کو نظر انداز کریں گے تو یہ انسان دوستی اور انسانیت کی سب سے بڑی شکست ہوگی۔”

انہوں نے کہا کہ ریاست اور اسکے ادارے اپنے دارالحکومت میں، جہاں پر کہیں ملکوں کے ایمبیسیڈرز، انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل میڈیا ہائوسز کی موجودگی میں اس تحریک سے جڑے لوگوں پر تشدد، پروفائلنگ اور ہراساں کرنا شامل ہیں، جہاں یہ ادارے اس حد تک گر گئے کہ ہمارے پُرامن  تحریک کو ختم کرنے کیلئے برائے نام جھوٹے سیکیورٹی تھریٹ الرٹ جاری کر کے اسلام آباد میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی لوگوں کے بیچ پینک اور اِن سیکیورٹی(Insecurity) کے حالات پیدا کئے تاکہ ہمیں مزید ہراساں کیا جائے اور ہماری اس تحریک کو تشدد سے ختم کرکے جسٹیفائی کیا جا سکے۔ تو آپ اندازہ لگائیں کہ یہ سیکیورٹی ادارے عام بلوچ آبادی پر کس طرح ظلم ڈھا رہے ہیں، اور یہ لوگ بلوچستان کےحقیقی حالات کو گزشتہ 75سالوں سے کس طرح دنیا کے سامنے دباتے آرہے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ​​جس طرح یہ تحریک 20 دسمبر کی یخ بستہ شام کو اسلام آباد میں داخل ہوتی ہے، ہمارے پُر امن قافلے کااستقبال لاٹھی، واٹرکینن اور گرفتاریوں سے کیا گیا۔ اس کے بعد گزشتہ ایک مہینےسے اسلام آباد پریس  کلب کے سامنےجاری دھرنے میں ہم نے ایک رات بھی ایسا نہیں گزارا ہے جس میں ہمیں اسلام آباد پولیس اور خفیہ اداروں کی جانب سے دھمکی، ہراسگی اور پُرتشدد اقدامات کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔

“اسلام آباد پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے پُرتشدد اقدامات کے عینی شائد اسلام آباد کی معزز عوام، صحافی حضرات اور انسانی حقوق کے رہنما ہیں جن کی موجودگی میں اس پورے دھرنے کے دورانیہ میں ریاستی سیکورٹی فورسز کبھی بھی پر امن نہیں رہے ہیں۔ جس کی تازہ مثال گزشتہ روز ہونے والا ہمارا مظلوم اقوام کا بین القوامی کانفرنس تھا جس کو روکنے اور ناکام بنانے کے لیے کرفیو جیسا سماں تھا ، چاروں طرف راستے بند کیے گئے تھے، ہمارے معزز مہمانان اور شرکاء کو آنے سے روکا گیا اور ہمارے استاد اور وکلاء کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے جس کی ویڈیو ثبوت بھی موجود ہیں۔ جبکہ اس ریاست کی جانب سے ہم بلوچوں نے اسلام آباد میں اُس رویے کا بھی سامنا کیا جس میں ہماری بوڑھی ماؤں پر واٹرکینن اور لاٹھیاں استعمال کیے گئے اور ہمارے نوجوانوں کو جیل اور تھانوں میں لے جایا گیا اور یہاں تک کے انہوں نے ہمارے کیمپ میں کمبل اور کھانے پینے کی اشیا تک آنے نہیں دیے۔ جبکہ اسلام آباد پولیس اور خفیہ ادارے مسلسل ہمارے نوجوان ساتھیوں کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ پروفائلنگ بھی کرتے رہے ہیں جس میں انہیں براہِ راست دھمکیاں بھی دی گئی ،اس میں اس طرح کے جملے بارہا استعمال کیے گئے کہ ” ہم تمہیں بعد میں دیکھ لیں گے”۔ جبکہ اسلام آباد پولیس نے اس پورے دورانیے میں اس چیز کا بھی خیال نہیں رکھا کہ اس دھرنے میں ہمارے ساتھ اکثریت خواتین اور بچے ہیں لیکن ان سب کے باوجود انہوں نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اس چھوٹے سے جگہ کو ہمارے لیے قید خانہ بنا کے رکھا ہے۔ جہاں گزشتہ ایک مہینے سے انہوں نے  بلوچستان کی پرامن آواز کو دبانے کے لیے بلوچ ماؤں، بچوں اور بزرگوں کے ساتھ قیدیوں اور غلاموں سے بدتر سلوک کیا اور جو نفرت ہم نے ریاست کے سیکورٹی اداروں کی آنکھوں میں بلوچوں کے لیے دیکھی، یہاں اس دھرنے میں موجود ہمارے معصوم بچے، بزرگ اور عورتیں اس نفرت کو کبھی بھی  بھول نہیں پائیں گے۔”

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس تحریک کے شروع دن سے ریاست  سے کہہ رہے ہیں کہ یہ تحریک بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک عوامی تحریک ہے۔ اس تحریک کی قوت عوامی ہے اور جس تحریک کے پاس عوامی قوت اور حمایت ہو اس تحریک کو طاقت اور تشدد سے کسی صورت ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس ریاست نے جس طرح گزشتہ 75 سالوں سے ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دینے کی بجائے ہمیشہ انفرادی ضد، انا اور بچگانہ رویہ اور سوچ کو اداراتی شکل دے کر مظلوم لوگوں کو تشدد کی طرف دھکیل دیا جس کو پرائم منسٹر آف پاکستان نے واضح الفاظ میں اس تحریک کے سیمپتائیزرز جس میں جرنسلٹ اور انٹلکچولز کو مسلح تنظیم کے کیپ میں شامل ہونے کا پیغام دیا، کیا یہ ریاست کی سنجیدگی ہے؟ کیا اس ملک میں حقیقی مسئلوں کا حل صرف تشدد سے ہی ممکن ہے جسکی تلقین وزیراعظم نے کی ہے؟ کیا ہماری پرامن تحریک کو ریاست تشدد کرکے اس طرف نہیں دکھیل رہی؟ کیا یہ ریاست اور اسکے ادارے پوری بلوچ آبادی کو پرتشدد ہونے پر اکسا نہیں رہے؟ کیا یہ غیر سنجیدگی اور غیر انسانی عمل میں نہیں آتے؟ کیا سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تمام ریاستی ادارے یہاں کی برائے نام سیاسی پارٹیاں برائے راست بلوچ نسل کشی میں ملوث نہیں ہیں؟ کیا یہ سب آگ میں تیل ڈالنے کا کام نہیں کر رہے ہیں؟ لیکن ہم دنیا کے سامنے واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی انکی اِن پرتشدد رویوں اور اکسانے سے اپنے راستے کو متعین نہیں کرتی بلکہ شعوری طور پر شروع دن سے پرامن رہی ہے۔ اور اپنی منزل تک پرامن رہ کر مزاحمت کرتی رہے گی۔ بی وائی سی کو جس طرح ریاستی اداروں کی طرف سے تشدد کی طرف لے جانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے ہم  عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کے اس عمل کے خلاف نوٹس لیں۔

“اس ریاست کو یہ معمولی بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اگر اس تحریک کی حمایت  میں دشت جیسے دور افتادہ گاؤں میں عورتوں، بچوں سمیت  ہزاروں لوگ نکل سکتے ہیں تو آپ کو ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیکر یہ تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے اور اس تحریک کے پیچھے پوری بلوچ قوم کھڑی ہے جو گزشتہ 75سالوں سے آپ کی ظلم اور جبر کو برداشت کرتے آرہے ہیں۔ اور اب وہ آپ سے بیزار ہوچکے ہیں اس لیے وہ لیاری سے لیکر تونسہ شریف تک اور دالبندین سے لیکر جاؤ تک لاکھوں کی صورت سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یہ ریاست ایک ذمہ دار ریاست کا کردار ادا کرتی اور اس بات کو تسلیم کرتی تو شائد وہ عمل اس ریاست کے حق میں جاتا لیکن ریاست نے پر تشدد رویہ اختیار کرکے اپنے لیے بلوچ عوام میں نفرت اور بیزاری کے ایک اور باب کا اضافہ کیا۔”

ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ میرے خیال سے ایک میٹرک کے طالب علم کو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ عوامی تحریکوں کو تشدد اور طاقت سے روکنے کا یہ مراد ہوتا ہے کہ آپ اس تحریک کے طاقت میں اضافہ اور اپنے لیے مزید نفرت پیدا کررہے ہو لیکن جس بات کا ادراک میٹرک کے اسٹوڈنٹس کو ہوتا ہے لیکن افسوس اس ریاست اور اسکے اداروں کو اس بات کا ادراک نہیں ہے۔

“اس ریاست نے اس تحریک کو روکنے کے لیے ہر علاقے میں مظاہرین پر ایف آئی آر درج کیے ، مارچ کو روکنے کے لیے بھر پورتشدد کا استعمال کیا،  اسلام آباد سمیت متعدد علاقوں میں مظاہرین کو گرفتار کرنا، جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین کے گھروں میں چھاپہ مارنا، اسلام آباد سمیت ہر علاقے میں ہونے والے مظاہرین کی پروفائلنگ کرنا، دھمکیاں دینا ، ہراساں کرنا اور بلوچستان سےبدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں کو اکھٹا کرکے ہمارے مدمقابل ان کے کیمپ لگانے سمیت ہر قسم کے حربے استعمال کیے لیکن کیا اس سے یہ تحریک ختم ہوئی؟ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کے ان مظالم اور جبر نے اس تحریک کو مزید توانائیاں فراہم کی ہیں، کیونکہ ہم سچ اور حق پر ہیں اور یہ ریاستی ادارے جھوٹ اور پروپیگنڈہ پر قائم رہنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں؟”

“ریاست کے اس ظلم نے ہمارے ماؤں، بچوں اور بزرگوں کو زیادہ حوصلہ فراہم کیا اور سب سے اہم بات جس کا اس ریاست کو قطعاً بھی اندازہ نہیں ہے کہ اسلام آباد میں بلوچ عوام پر ہونے والے مظالم نے بلوچستان بھر میں بلوچ عوام کے دلوں میں نفرت اور بیزاری کے ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس پورے پرامن دھرنے کے دوران جس طرح  ریاست  کے فورسز اور خفیہ اداروں نے پرتشدد رویہ اختیار کیا اور اس پُرامن تحریک کو ختم کرنی کی کوشش کی اس کی تو ہمیں پہلے سے توقع تھی ،بلکہ ہمیں ان سے اس سے بھی زیادہ توقع تھی کیونکہ ہم ان کے خطرناک مظالم کا سامنا گزشتہ 75سالوں سے بلوچستان میں کرتے آرہے ہیں۔  لیکن سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم نے اس مشکل وقت میں ریاست کے تمام ستونوں کو ایک پیج پر پایا ہے جس میں عدلیہ سے لیکر میڈیا تک شامل ہیں ۔ ریاست کے سیکورٹی ادارے ایک جانب ہمیں تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے تو دوسری جانب ریاست کی عدلیہ مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی تھی ، میڈیا ریاست کے مظالم کو چھپانے کے لیے ہمارے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں، نام نہاد وفاقی پارٹیوں کے لوگ ہمیں گالیاں اور دھمکیاں دے رہے تھے اور خود ساختہ دانشور ہمارے لیے نفرت کا براہ راست اظہار کررہے تھے ۔

“ہم یہاں اس دھرنے میں ان تمام نفرت انگیز مناظر کو اپنی یاداشت میں محفوظ کررہے تھے کہ کس طرح یہ لوگ بلوچوں کے معصوم بچوں اور بوڑھی عورتوں سے بھی نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس رویے اور نفرت کو عام پاکستانی لوگوں کے ذہن میں انجکٹ کرکے ہمارے خلاف بھڑکانے کیلئے اپنی پوری توانائی خرچ کر رہے ہیں۔ ہم بطور انسانی حقوق کے کارکن اسکی شدید مزمت کرتے ہیں اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ اس پر تحقیقات کرکے اس خطے میں اس جنونیت کو ختم کرنے میں موثر اقدامات اٹھائیں اور ذمہ دار ریاستی اداروں کو اس جنونیت اور نفرت پھیلانے پر جواب دہ ٹھہرائیں۔ ہم کس قدر سادہ لوح لوگ تھے، یہ سمجھتے رہے کہ اسلام آباد میں کم سے کم یہ لوگ آکر ہمیں سنیں گے ہمارے لوگوں کو سنیں گے لیکن دارالحکومت نے 75 سالوں سے بلوچ لوگوں کو ‘دشمن’ سمجھ کر ہمارے ساتھ غیر انسانی عمل تیز کردی، اور یہ آگے بھی ہماری اس پرامن تحریک کو تشدد اور طاقت کے ذریعہ ختم کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔ جس کی خاطر ہم عالمی انسانی حقوق کے اداروں کےساتھ ساتھ، مہذب دنیا کے لوگوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس پورے عمل کا مشاہدہ کریں۔”

انہوں نے کہا کہ ہم تربت سے یہاں تک اس لئے آئے تھے کہ انصاف کا بول بالا کرنے میں مدد کریں، لیکن آج اس ریاست کے ساتھ اس کی میڈیا ، عدلیہ، نام نہاد دانشور اور وفاقی پارٹیوں کو ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں ہے کہ ہم یہاں اسلام آباد سے واپس بلوچستان کیا لیکر جائیں گے۔ یہ مائیں اور بچے اسلام آباد سے صرف اور صرف نفرت لیکر واپس بلوچستان جائیں گے جسکا بیج اسلام آباد 75 سالوں سے بو رہا ہے اور یہاں آکر اس کو اسلام آباد نے اپنی پر تشدد اور دشمن جیسے سلوک کے ذریعے مزید آشکار کر دیا۔ اور وہ آپ کے رویے، آپ کی گالیاں، آپ کا تشدد اور اس درد و تکلیف بھری کہانی کو بلوچستان کے گھر گھر کو سنائیں گے اور آپ کے اس جبر کی داستان کو ہم لوریوں کی صورت اپنے آنے والے نسلوں کو سنائیں گے ۔

“جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاستی خفیہ اداروں اور اسٹبلشمنٹ کی چمچہ گیری میں نام نہاد صحافی، دانشور اور وفاق پرست پارٹیوں کے لوگ بلوچ دشمنی میں اس حد تک گر گئے ہیں اور ہمیں یقین ہے شرمندگی اور ندامت اسلام آباد اور اسکے اداروں کی نصیب میں لکھی جائے گی۔ اور ان کی آنے والے نسلیں اپنے آبا و اجداد کے ان حرکات پر شرمندہ ہوجائینگی۔ وفاق پرست پارٹیوں نے نہ صرف اپنے لوگوں کو ہمارے اس تحریک کے خلاف متحرک کرکے ہمارے خلاف مہم چلائی بلکہ انہوں نے بلوچستان سے قاتل، چور ، منشیات فروش اور ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں کو آنے والے الیکشن کے لیے بھرتی کرکے اپنی بلوچ دشمن پالیسیوں کا واضح اظہار بھی کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دانشوروں اور صحافیوں نے اپنے قلم کا چند مراعات کی خاطر سودا کرکے اپنے قلم کو بلوچ قوم کی دشمنی میں بھر پور استعمال کیا اور رہی سہی خسر کل اسلام آباد پریس کلب نے پولیس کو اس دھرنے کے خلاف نوٹس بھیج  کر پوری کردی جو صحافت کے تاریخ میں ایک بدنما داغ ہے۔ سب یاد رکھا جائے گا۔”

ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ ​​ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری اس تحریک کا اسلام آباد آنا اور اسلام آبادمیں دھرنا دینا اس ریاست کے لیے ایک بہترین موقع تھا کہ وہ بلوچستان میں جاری سیاسی تنازعے کوحل کرنے کے لیے تشدد اور طاقت کا استعمال ترک کرکے بات چیت کا آغاز کرتے۔ لیکن ریاست نے اس پر امن تحریک پر طاقت اور تشدد کا استعمال کرکے پوری دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا ہے کہ ریاست کا رویہ بلوچ قوم اور بلوچستان کے حوالے سے کس قدر پرتشدد ہے اور اس پُرامن تحریک پر طاقت اور تشدد کے استعمال کے بعد یہ ریاست عملی طور پر ثابت کرچکا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے پر کس قدر غیر سنجیدہ ہے جبکہ ریاست، عدلیہ ، میڈیا ، وفاق پرست پارٹیوں، نام نہاد صحافیوں اور دانشوروں کا بلوچ دشمن رویہ اور بلوچ قوم کے لیے نفرت دیکھ کر ہم اپنے اسلام آباد دھرنا اور اپنے تحریک کے چوتھے فیز کے خاتمے اور اس کے ساتھ ہم اپنے تحریک کے پانچویں فیز کے آغاز کا اعلان کرتے ہیں۔ جس میں بلوچ نسل کشی کے خاتمے کے لیے انسان دوست اور مہذب لوگ خاص کر بلوچ عوام کو مزید متحرک کریں گے اور دنیا کے مہذب لوگوں کے سامنے مظلوم عوام پر ریاستی تشدد کو آشکار کرتے رہیں گے۔ ہم ریاستی غیر انسانی پالیسیوں اور رویوں کو عوامی عدالت میں رکھیں گے، عوامی طاقت کو اس جابر ریاست اور اسکے اداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے متحرک کریں گے اور مظلوم عوامی طاقت سے ان باربیرک اور بروٹل اداروں کو انسانیت کی قدر کرنا سکھائیں گے اور انکو انسان بنا کر دم لیں گے۔ اور ہماری یہ تحریک مختلف فیزز سے گزر کر بلوچ نسل کشی کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ اسکے علاؤہ ہم سوشل میڈیا کیمپین کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائع بروئے کار لاکر بلوچ نسل کشی کے کیمپین کو وسعت دیں گے۔

“جبکہ ہمارے اسلام آباد دھرنے کے دوران ہمارے اقوامِ متحدہ کے نمائندگان سمیت جتنے بھی انسانی حقوق کے تنظیموں کے ساتھ روابط قائم ہوئے ہیں، ہم نے ان سب کو تحریری اور زبانی دونوں صورت میں ہمارے تحریک کے خلاف ریاست کے پُر تشدد اقدامات کے بارے میں باقاعدگی سے آگاہ کرتے رہیں گے اور اس خطے میں خاص کر بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں سے متعلق آگائی دیتے رہیں گے۔”

“جس کیلئے عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری اس تحریک سے جڑے رہنے کے ساتھ ساتھ اپنی پوری کمک فراہم کریں گے اور ایک مستقل تعلق کے لئے راستہ ہموار کریں گے۔ تاکہ ہم مل کر انسانی جانوں کا ضیا ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگی جیسی انتہائی سنگین اور غیر انسانی عمل کے جلد سے جلد روک تھام کیلئے موثر عملی کردار ادا کر سکیں۔  اور مل کر انسانیت کا بول بالا کر سکیں۔ اس کے علاؤہ ہم اپنے تحریک کے اگلے فیز میں اس بات پر سب سے زیادہ توجہ رکھیں گے کہ ہم بین القوامی دنیا کو بلوچستان کے انسانی حقوق کے صورتحال اور بلوچ نسل کشی کے حوالے سے مسلسل آگاہ کرتے رہیں گے۔ اور ہم اپنے تحریک کے اگلے فیز کے دوران اس ریجن کے تمام محکوم اور مظلوم عوام کو متحرک کرکے، اس اتحاد کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ ہر جابر کے خلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کریں گے ۔

“ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے ان تمام لوگوں کو ایک واضح پیغام دینا چاہتے ہیں جس طرح آپ لوگوں نے مظلوم بلوچ عوام کے لیے اپنے بھر پور نفرت کا اظہار کرکے اپنے کردار اور حقیقت کو واضح کیا، ہم سمجھتے ہیں یہ چیز ہمارے لیے نیک شگون ہے۔ کم از کم ہم اور ہماری بلوچ قوم آپ کی اس حقیقت سے اب مکمل طور پر آشنا ہوچکی ہے، آپ نے ظلم اور جبر کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی مظلوم اور بلوچ دشمنی کا واضح اظہار کیا ہے۔

“اس کے ساتھ ساتھ ہم ریاست کو بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ تمہارے تمام تر حربے، سازش اور پر تشدد اقدامات نے ہمارے حوصلے اور ہمت کو مزید منظم کیا ہے اور ہمارے تحریک کو تقویت دینے کا باعث بنے ہو اور اب یہ تحریک اسلام آباد سے بہت کچھ سمیٹ کر واپس بلوچستان جارہا ہے اور ہم اسلام آباد کے ظلم  کی ایک ایک داستان کو بلوچستان کے گھر گھر میں پہنچائیں گے اور عوامی طاقت و قوت سے بلوچستان سے آپ کے ظلم و جبر اور انتہائی غیر انسانی اقدامات کے خلاف ہمیشہ ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں ان حالات میں اس تحریک کا اسلام آباد سے واپس بلوچستان جانا اس تحریک کو نئی قوت اور طاقت فراہم کریں گی۔”

انہوں نے کہا کہ آخر میں ہم ان سب کرداروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس پوری تحریک میں ہمیں سپورٹ کیا۔ وہ چند اچھے انسان جن میں صحافی،وکلاء، استاتذہ، طلباء، سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکن اور شہری شامل ہیں ان کے ہم تہہ دل سے مشکور ہیں۔ آپ لوگ گو کہ تعداد میں چند تھے لیکن آپ کی محبت، ہمدردی اور جذبے نے لاکھوں کے برابر حوصلہ عطا کیا ہے۔ ہم آپ کے احترام، محبت اور ہمدردی کو کبھی بھی نہیں بھولیں گے۔