علی اصضر بنگلزئی کے جبری گمشدگی کو 22 سال مکمل، والد کو بازیاب کیا جائے ۔ بیٹا

93

علی اصغر بنگلزئی کی طویل جبری گمشدگی کے خلاف انکے بیٹے غلام فاروق نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں چیئرمین نصراللہ بلوچ، ماما قدیر، حوران بلوچ اور علی اصغر کے بڑے بھائی داد محمد کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انکے والد علی اصغر کو فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں پہلی مرتبہ جون 2000 میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے جبری لاپتہ کردیا اور 14 دن کے بعد انکے والد کو چھوڑ دیا۔ علی اصغر کو دوسری مرتبہ 18 اکتوبر 2001 کو محمد اقبال کے ساتھ ڈگری کالج کے سامنے سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے غیر قانونی گرفتار کرکے جبری لاپتہ کردیا محمد اقبال کو 24 دن کے بعد چھوڑ دیا اور علی اصغر تاحال خفیہ اداروں کی حراست میں ہے، آج 18 اکتوبر کو والد کے جبری گمشدگی 22 سال مکمل ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ 22 سالوں میں ہم والد کی بازیابی کے لیے انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں اور مختلف حکومتوں کے دروازوں پر دستک دینے کے ساتھ ساتھ پرامن احتجاج بھی کرتے آرہے ہیں عدالت اور کمیشن کے سامنے یہ ثابت ہوا کہ علی اصغر کو خفیہ اداروں نے حراست میں لیا ہے لیکن اسکے باوجود بھی انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں نے انہیں ملکی قوانین کے تحت انصاف فراہم کرانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا بلکہ والد کے کیس کو خراب کرنے کے لیے کیس میں قانونی پیچیدگیاں پیدا کی جاتی رہی ہے، لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیشن نے رواں سال دوبارہ والد کے کیس پر اسر نو تحقیقات شروع کیا ہے یعنی اب ہمیں دوبارہ والد کی بازیابی کے لیے ازسرنو قانونی جنگ لڑنی پڑے گی

غلام فاروق نے کہا کہ والد کی جبری گمشدگی کی وجہ سے انکے خاندان کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے وہ اور انکے بہن بھائی والد کی شفقت سے محروم ہونے اور طویل آئینی و پرامن جدو جہد کے باوجود انصاف نہ ملنے کی وجہ سے کرب و اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہمارا مستقبل تباہ ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انکے خاندان کے ان تمام حالات کے ذمہ دار ریاست، ریاستی ادارے اور عدلیہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ریاست، ریاستی ادارے سمیت ریاست کے انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے تمام ادارے ہمارے خاندان کے مجرم ہے ہم انہیں معاف نہیں کرینگے۔

انہوں نے اپیل کی کہ انسانی ہمدردی کے بنیاد پر انہیں صرف یہ معلومات فراہم کیا جائے کہ علی اصغر زندہ ہے یا انہیں دوراں حراست شہید کیا گیا ہے۔

آخر میں انہوں نے انسانی حقوق کی اداروں سمیت سیاسی پارٹیوں، طلباء تنظیموں اور مکاتب فکر کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ علی اصغر سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں۔

جبکہ آج وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ 5203 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر سابقہ سینیٹر ، بی ایس او کے چئرمین مہیم خان بلوچ، نیشنل پارٹی کے سینیئر کارکن غفار قمبرانی اور دیگر نے موجود تھے۔