بولان سے چترال بشمول اٹک ومیانوالی پشتون صوبہ ہمارا حق ہے۔ خوشحال خان

364

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ نے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام باچا خان، ولی خان اور 21 ویں صدی کے عنوان کے تحت منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ باچا خان 20 ویں صدی کے ان عظیم رہنماﺅں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے برصغیر کے عوام کے لیے بغیر رنگ و نسل، مذہب ، انکی آزادی اور ترقی کیلئے جدوجہد کی۔ انگریزی استعمار سے آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ وہ ایک اصلاح پسند رہنما بھی تھے۔

انہوں نے پشتون معاشرے میں اصلاحات کیلئے 1921 میں انجمن اصلاح افاغنہ اور 1929 میں خدائی خدمتگار جیسے تحریکوں کا آغاز کیا جو ایک عدم تشدد کی تحریک تھی۔

انہوں نے تعلیم اور صحافت کیلئے بھی خدمات انجام دیئے۔ 1928 میں پشتون جرنل کے نام سے رسالہ متعارف کروایا جس میں انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد اور انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کیلئے بھی تبلیغات کی جاتی تھی۔ باچا خان نے سیاسی جدوجہد کے دوران انگریز استعماراور پاکستان بننے کے بعد قیدوبند اور دیگر تکلیفات برداشت کئے ۔ انگریزی استعمار کی جانب سے قیدوبند اور زیادتیاں تو سمجھ میں آنے والے ہے مگر اسلام کے نام پر بننے والےملک میں قید وبند اور مشکلات سمجھ سے بالاتر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد استعماری پالیسیاں زیادہ مضبوط ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد باچاخان نے ایک نئے پاکستان کی تشکیل کی بات کی اور اس بات پر اسرار کرتے رہے کہ ملک کے دولخت ہونے کے بعد اب قوموں کو آزادی اور خودمختاری دینے پڑےگی۔ پاکستان کے آئین میں لکھنے کی حد تک تو بہت کچھ ہے لیکن عملدرآمد نہیں۔ جیسے کہ آئین توڑنے والوں کی سزا موت ہے لیکن یہ آئین نہ مارشلاوں سے ملک کو محفوظ رکھ سکا اور نہ ہی قوموں کی خودمختیاری کو یقینی بنا سکا۔ پاکستان میں اس وقت دو اہم مسائل ہیں عوام کی حاکمیت اور قوموں کی حق ملکیت اور خود مختاری۔ پاکستان ایک فیڈریشن کے باوجود اس میں اپنی تاریخی زمینوں پر آباد قومیں غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور قوموں کی تشخص اور ثقافت کو مسخ کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ پنجاب کی مقتدر قوتوں نے انگریزوں کی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے ہماری سرزمین اور وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس ملک کے اداروں جس میں فوج و انٹیلیجنس ، عدلیہ، میڈیا اور دیگر کو قوموں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ادارے ریاستی تخریب کاری اور فرقہ واریت میں شامل ہے ۔

خوشحال نے کہا کہ بولان سے چترال بشمول اٹک ومیانوالی کا پشتون صوبہ ہمارا حق ہے۔ افغانستان میں آج بھی پراکسیز کو مسلط کر دیا گیا ہے اور انکے ذریعے تمام اداروں کو ختم کردیا گیا ہے ۔ ان اقدامات اور عملیات کی وجہ سے آج یہ ملک دیوالیہ ہوگیا ہے ۔ ملک میں حکمرانی کا یہ حال ہے کہ علی وزیر کو فوج کی مرضی پر پابند سلاسل کیا گیا ہے اور حکومت مکمل طور پر بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے سروں کو کاٹ کر اسکے پہاڑ بھی بنائے جائے تو ہم انگریز کی طرح ہر استعمار کا غرور خاک میں ملا دیں گے۔