نوشکی: سی ٹی ڈی کے ہاتھوں لاپتہ افراد کی قتل کے خلاف احتجاج

319

بلوچستان کے ضلع نوشکی میں اتوار کے روز بی ایس او پجار کے زیر اہتمام سی ٹی ڈی کے ہاتھوں زیر حراست بلوچوں کی جعلی مقابلے میں قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

اس موقع پر بی ایس او پجار کے مرکزی جونیئر جوائنٹ سیکرٹری وکرم کنول بلوچ ، نیشنل پارٹی کے صوباٸی جنرل سیکرٹری خیر بخش بلوچ ،بی ایس او کے سی سی ممبر آغا حق نواز شاہ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ لاشیں گرانے سے قومیتیں ختم نہیں ہوتی، اس لیے اس تسلسل کو بند ہونا چاہیے۔ریاست جب آئین شکنی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس ریاست میں امن سکون نہیں آئے گا۔ ماورائے آئین سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنا اور ان کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنا خلاف آئین ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کو آئین شکنی اور قتل و غارت کا ادارہ بنایا گیا ہے جو انتہائی منفی اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ تابش وسیم کا جرم یہ تھا کہ وہ سیاسی کارکن اور شاعر تھا۔ جو علم چاہتا تھا لیکن ان کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا اور گزشتہ روز اس کی لاش مل گئ۔

انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے جو آگ بلوچستان میں لگائی تھی۔ اس آگ کو جعلی مقابلوں کے زریعے تیز کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔جو قابل مذمت ہےان نوجوانوں کے خون کی ذمہ داری یا حساب کس سے لے۔ ان وفاقی وزراء و وفاقی نمائندگان سے جو لواحقین کے احتجاجی دھرنے میں آکر وعدہ کرگئے کہ اب لاشیں نہیں ملے گی یا اس جعلی اسمبلی سے جو مکمل طور پر حکومت کا حصہ ہے جہاں کوئی اپوزیشن نہیں کہ ان کی نام نہاد جوڈیشل کمیشن کہاں گئ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسلہ لاشیں گرنے سے حل نہیں ہوگا بلوچستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں کہ جس میں بے گناہ نوجوانوں کو شہید کیا گیا ہو تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کئی بے گناہ بزرگ ،بچے اور نوجوان شہید ہوچکے ہیں۔

مظاہرین نے کہا کہ ہم نے شہید وسیم تابش بلوچ اور دیگر اغواء شدہ بلوچوں کے لئے بلوچستان کے تمام اضلاع کے علاوہ کراچی میں بھی مظاہرے کئے گئے تھ ےکہ وسیم تابش بلوچ کو خضدار سے اغوا کیا گیا تھا۔ اور اب جعلی آپریشن میں وسیم تابش بلوچ، سلال بادینی، فرید بادینی اور دیگر نوجوانوں کو دہشت گرد کہہ کر شہید کیا گیا۔ جسکی ہم بھرپور مذمت کرتےہیں

مقررین نے مزید کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے ٹیبل ٹاک کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے مگر نااہل حکمرانوں کو بلوچ سے نہیں اسکی سرزمین ساحل وسائل کی ضرورت ہے۔

انہوں نے عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ بلوچ نسل کشی کا نوٹس لیں اور اغواء نما گرفتار لوگوں کو بازیاب کرانے میں اپنا کردار اداکریں۔