فہیم بلوچ کے گمشدگی میں سندھ پولیس ملوث ہیں – لواحقین

350

کراچی پریس کلب میں لاپتہ پبلشر اور صحافی لالہ فہیم بلوچ کے لواحقین، ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے کو چیئر پرسن، اسد اقبال بٹ اور قاضی خضر اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ پریس کانفرنس کی اور فہیم بلوچ کے جبری گمشدگی کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا۔

پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ 25 سالہ لالہ فہیم کا بنیادی تعلق بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے وشبود سے ہے۔ وہ علم و ادب پبلشنگ ہاؤس کے مینیجر ہیں جبکہ صدائے بلوچستان ڈاٹ کم اور سہ ماہی گدان پنجگور کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے نیول کالونی کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ دوستوں اور عزیزوں میں انہیں لالا فہیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نامور پبلشر اور صحافی لالہ فہیم بلوچ کو کراچی کے علاقے اردو بازار سے 26 اگست کی شام ساڑھے آٹھ بجے سول وردی میں ملبوس تین لوگ تین کمانڈوز کے ساتھ لالا فہیم کی بک شاپ، علم و ادب پبلشرز اینڈ بک سیلرز واقع بک مال، تھرڈ فلور اردو بازار میں آئے، عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے لالا فہیم سے ایک کتاب کا معلوم کیا، اس کے انکار پر وہ چلے گئے مگر کچھ دیر بعد واپس آئے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور اسے اپنے ساتھ لے کر، نیچے موجود پولیس وین میں بٹھا کر لے گئے جس کے بعد اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آگئی۔ فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سندھ پولیس اور کچھ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار انہیں علم و ادب کے دفتر سے لے جارہے ہیں۔ اس فوٹیج سے یہ بات واضح ہوگئی ہیں کہ لالہ فہیم کا اغواء میں سندھ پولیس کی معاونت سے تھی اور سندھ پولیس برائے راست اس واقعہ میں ملوث ہیں۔

پریس کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ اس واقعہ کے چار روز بعد 29 اگست 2022 کو لالہ فہیم بلوچ کے اغواء نما گرفتاری کے واقعہ کی ایف آئی آر پریڈی تھانے میں لاپتہ فہیم بلوچ کی کزن ام حبیبہ ایڈوکیٹ کی مدعیت میں درج کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ لالا فہیم نے کچھ دوستوں کی مدد سے 2016 میں علم و ادب بک سیلرز کے نام سے کتابوں کی ترسیل کا کام شروع کیا، اور کچھ سال پہلے ہی پبلشنگ بھی شروع کی۔ اس دوران انہوں نے اپنے ادارے سے سو سے زیادہ علمی و ادبی کتابیں شائع کیں۔
علم و ادب پبلشرز زیادہ تر ادبی کتابیں شائع کرتا ہے۔ جس میں نوے فیصد سے زیادہ اردو میں اور چند ایک بلوچی میں بھی شامل ہیں۔ یہ کتابیں بازار میں عام طور پر دستیاب ہیں۔ ان میں کوئی ایسا مواد نہیں پایا جاتا جسے ماورائے آئین یا ریاست مخالف کہا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ فہیم کی رہائی کے لئے ہم نے سندھ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے۔ جس کی سماعت بھی ہورہی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت سے ہمیں انصاف ملے گا۔