فیروز بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی کیمپ

338

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کی جانب سے لاپتہ بلوچ طالب علم فیروز بلوچ کی جبری گمشدگی و عدم بازیابی کے خلاف ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کے باہر احتجاجی کیمپ قائم کی گئی ہے۔

احتجاجی کیمپ طلباء کے ہمراہ لاپتہ فیروز بلوچ کے والد نور بخش بلوچ بھی شریک ہوکر بیٹے کی بازیابی کے لئے احتجاج کررہے ہیں-

فیروز بلوچ کے والد کے مطابق 17 سالہ فیروز بلوچ ایک غریب گھرانے سے ہے اس کی زندگی کے حوالے سے خوفزدہ ہیں۔تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں خصوصاً طلباءسے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمارے بھوک ہڑتالی کیمپ میں شامل ہوں اور بیٹے کی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کریں۔

طالب علم فیروز بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاج پر بیٹھے ساتھی طلباء کا کہنا تھا کہ کیچ سے تعلق رکھنے والے فیروز بلوچ ائیریڈ یونیورسٹی راولپنڈی کے طالب علم ہیں جنھیں گزشتہ ماہ یونیورسٹی سے لائبریری جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے جبری لاپتہ کردیا تھا-

لاپتہ طالب علم کی ساتھیوں کے مطابق فیروز بلوچ کو ملکی ادارواں نے حراست بعد لاپتہ کردیا ہے- طلباء نے بتایا کہ اس سے قبل بھی بلوچ طلباء کی پنجاب کے شہروں سے جبری گمشدگی میں سی ٹی ڈی اور خفیہ ادارے ملوث رہے ہیں-

یاد رہے بلوچ طلباء کی پنجاب سے جبری گمشدگی کے واقعات کا سلسلہ پرانا ہے اس سے قبل لاہور، فیصل آباد، ملتان، اسلام آباد، بہاولپور میں زیر تعلیم طلباء کو حراست بعد لاپتہ کردیا گیا ہے جن میں رواں سال لاہور پنجاب یونیورسٹی سے بیبرگ بلوچ اس سے قبل زکریہ یونیورسٹی بھاولپور سے یاسین بشام اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تھرڈ ایئر کے طالب علم الطاف نصیر بلوچ شامل ہیں-

بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے دؤران طالب علم بیبرگ بلوچ کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں اغواء کی فوٹیج بھی منظر عام آگئی تھی تاہم اس واقعہ کے بعد بیبرگ بلوچ سمیت دیگر طلباء بازیاب ہوگئے ہیں-

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں بلوچ ریاستی خفیہ اداروں اور فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد بلوچ طلباء کی ہے تنظیم کے مطابق بلوچستان، سندھ، پشاور، اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے بلوچ طلباء کی سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں گمشدگی کے اطلاعات رپورٹ ہوئے ہیں-

تنظیم کا مزید کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں کے اس فہرست میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں-