جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیٹی قائم کی جائے – آمنہ بلوچ

451

کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ نے کہا کہ گذشتہ روز سندھ اسمبلی کے سامنے وہ جمہوری طریقے سے اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کررہے تھے لیکن سندھ میں بلوچ ماؤں، بہنوں اور نوجوانوں پر تشدد کیا گیا ان کے سرپر بلوچی چادر چھین کر انہیں دہشتگردوں کی طرح پولیس موبائلوں میں گھیسٹا گیا اور پولیس تھانے میں گالی گلوچ کی یہ عمل بلوچی روایات کے برخلاف تھا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ دھرتی پر ہمارے دوپٹہ اور چادر محفوظ نہیں ہے۔ اور ایسا نہ ہوں کہ بلوچستان میں بھی سندھی حکمرانوں کے لئے جگہ تنگ ہوسکے اب یہ سندھ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ بلوچ بیٹیوں اور ماؤں پر سندھ پولیس کی تشدد کرنے پر اپنا کیا ردعمل دینگے؟ وگرنہ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھی حکمران بھی پنجابی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے شانہ بشانہ ہیں۔

آمنہ بلوچ نے سندھی قوم سے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھی قوم سندھ دھرتی میں بے شمار بلوچ نوجوانوں کی بازیابی میں بلوچوں کا ساتھ دیں۔ اور سندھ حکومت پر دباؤں ڈالیں تاکہ سندھ دھرتی سے اٹھائے گئے بلوچ بازیاب ہوسکے۔

آمنہ بلوچ نے سندھ حکومت کو وفاقی سیکیورٹی اداروں کی سرپرستی کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت اپنا قبلہ درست کرلیں، آمنہ بلوچ نے کہا کہ آج ان سے سندھ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے رابطہ کیا ہے اور بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کل ہونے والے سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ خاتون اور بچوں پر تشدد کا نوٹس لیا ہے اور بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے تشدد اور گرفتاری کے حوالے سے ایک انکوائری کمیٹی بنائی ہے۔

آمنہ بلوچ نے تشدد اور گرفتاری پر بننے والی کمیٹی کو مسترد کرتے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ سندھ میں بلوچ نوجوان لاپتہ کئے جارہے ہیں ان پر انکوائری کمیٹی بنائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کو سندھ میں لاپتہ ہونے والے بلوچ نوجوانوں کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

آمنہ بلوچ نے گذشتہ پیر کے روز سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ مظاہرین پر پولیس کی تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے کراچی یونیورسٹی کے ’لاپتہ‘ بلوچ طلبہ اور ’جبری گمشدگیوں‘ کا شکار ہونے والے دیگر متاثرین کے حق میں سندھ اسمبلی کے مرکزی گیٹ کے قریب مظاہرہ کیا تھا۔ جس پر سندھ پولیس نے شیرخوار معصوم بچوں کے ساتھ ان ماؤں کو حراست میں لیا۔ ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ انہیں سڑکوں پر لیٹا کر ان پر تشدد کیا گیا۔ جس سے مظاہرین زخمی ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے 50 افراد کو حراست میں لے لیا۔ انہیں کلفٹن اور دیگر تھانوں میں رکھا گیا۔ نوجوانوں پر تشدد کیا گیا۔

آمنہ بلوچ نے کہا کہ کلفٹن تھانے میں انسپکٹر سجاد نے بلوچ خواتین کو گالیاں دیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے راشی آفسر کو برطرف کیا جائے۔

آمنہ بلوچ نے بلوچ خواتین کے سونے کی چین، زیورات اور موبائل فونز لوٹنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے تشدد کے دوران خواتین اور بچوں کے سونے کی چین، زیورات اور موبائل فونز لوٹ لئے ہیں۔ جو ایک شرمناک واقعہ ہے۔ انہوں سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ خواتین اور بچوں کے قیمتی اشیا واپس کروائیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ نے کہا کہ اب بھی سندھ میں ہمارے بے شمار نوجوان اور بزرگ سیکیورٹی اداروں کے قید میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نوربخش ولد حبیب کو گذشتہ روز کراچی کے علاقے ریئس گوٹھ سے اٹھا لیا گیا۔ نور بخش کا تعلق مکران ڈویژن سے ہے۔ اسی طرح کراچی کے علاقے ملیر سے سعید احمد ولد محمد عمر کو خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گھر سے اٹھا لیا۔ سعید احمد کا تعلق ضلع کیچ کے دشت کڈان سے ہے۔

کراچی کے علاقے سنگھور پاڑہ ماری پور کے تین نوجوانوں کو سادہ وردی میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔ جن کی شناخت علی ولد بخشی، اسرار ولد انور عمر اور اصغر ولد عیسی (مرحوم) کے نام سے ہوئی۔

اس موقع پر ایچ آر سی پی کے قاضی خضر، انسانی حقوق کے رہنما خرم، نغمہ اقتدار سمیت دیگر ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے رہنما بھی موجود تھے۔