بلوچ ایکٹوسٹس ہیکرز کے نشانے پر – ٹی بی پی فیچر رپورٹ

1698

بلوچ ایکٹوسٹس ہیکرز کے نشانے پر

دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ
رپورٹ: باہوٹ بلوچ

دو ماہ قبل پوری دنیا میں ہیکرز کا ایک گروہ خبروں کی سرخیوں پر چھایا ہوا تھا، جنہوں نے کاروباری شخصیات، اداروں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کو نشانہ بنایا جبکہ مذکورہ ہیکروں کیجانب سے کچھ ممالک کے وزراء اعظم کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کا انکشاف ہوا۔

جاسوسی سافٹ ویئر کے ذریعے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور کاروباری شخصیات کے فون ہیک کرنے کا انکشاف عالمی سطح پر 17 میڈیا پارٹنرز کی تحقیقات کے بعد ہوا۔ تحقیقات کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں شہریوں کے 50 ہزار سمارٹ فونز کی نگرانی کرنے کا انکشاف ہوا، جن میں کئی ایسے اسمارٹ فونز بھی تھے جو صحافیوں، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور بڑی کاروباری شخصیات کے زیرِ استعمال تھے۔

میڈیا پارٹنرز میں سے ایک ‘واشنگٹن پوسٹ’ نے اس جاسوسی کرنے والے سافٹ ویئر کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ فہرست میں جو فون نمبر موجود ہیں ان میں نام شامل نہیں ہیں لیکن رپورٹرز نے 50 ممالک میں ایک ہزار افراد کی شناخت کی ہے۔ ان میں عرب شاہی خاندان کے افراد، کم از کم 65 کاروباری شخصیات، 85 انسانی حقوق کے سرگرم کارکن، 189 صحافی اور 600 سے زیادہ سیاست دان اور حکومتی عہدیدار شامل ہیں۔ ان شخصیات میں متعدد سربراہان حکومت اور وزرائے اعظم بھی شامل ہیں۔

ان ہی دنوں بلوچستان میں مقیم انسانی حقوق کے کارکنان اور سماجی ایکٹوسٹس بھی ہیکروں کے نشانے پر تھے۔ چونکہ بلوچستان میں ریاستی پابندیوں کے باعث خبروں کے حصول میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے اور دوسری جانب متاثرین کیجانب سے بھی خوف کے باعث مختلف نوعیت کے خبروں کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا ہے جس کے باعث عالمی میڈیا پر یہ خبریں دکھائی نہیں دیتی۔

بلوچستان میں ہر تین میں سے ایک شخص اس احتیاط کیساتھ گھر سے نکلتا ہے کہ کہیں مختلف جاسوسی نیٹورکس کے ذریعے اس پر نظر تو نہیں رکھی جارہی جبکہ دوسری جانب ٹیکنالوجی کی گھر گھر میں پہنچنے پر لوگوں کی بہت کم تعداد آن لائن جاسوسی سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں، بلکہ ان کے پاس معلومات ہی نہیں کہ کس طرح احتیاطی تدابیر اختیار کی جائے۔

سکرین گریپ، بذریعہ متاثرہ ایکٹوسٹ

ایک ماہ قبل بلوچستان میں مقیم ایک خاتون ایکٹوسٹ، جو جبری طور پر لاپتہ اپنے والد کیلئے آواز اٹھاتی رہی ہے، کو ہیکنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ مذکورہ ایکٹوسٹ کو “ہیومن رائٹس” آرگنائزیشن کے نام پر بذریعہ وٹس ایپ بزنس نمبر سے ایک “APK” فائل بھیجی گئی تھی۔

مذکورہ ایکٹوسٹ سے بات کرنے پر مجھے پتہ چلا کہ گوکہ خاتون نے مذکورہ فائل پر ایک دفعہ کلک کیا لیکن وارننگ آنے پر اس نے وہ فائل کینسل کردیا اور فوراً اپنے ایک جاننے والے سے اس حوالے رابطہ کیا جس نے اس فائل کو انسٹال نہ کرنے کی ہدایت کی۔ تاہم دو روز بعد مذکورہ ایکٹوسٹ کے “آئی فون” نے وارننگ نوٹفکیشن دکھائی کہ آپ کا فون ہیک ہوچکا ہے اس حوالے سے آپ فوری طور پر محفوظ آپشنز اختیار کریں۔

ہیکنگ کا ایک اور واقعہ گذشتہ دنوں بیرون ملک مقیم ایک اور بلوچ خاتون کیساتھ پیش آیا جو صحافی ہیں اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھاتی ہیں۔ اس خاتون کو بھی اسی طرح ایک “APK” فائل بھیج کر ہیک کیا گیا۔

مذکورہ خاتون سے میں نے اس حوالے سے بات کی تو اس نے بتایا کہ بیرون ملک مقیم ایک بلوچ ایکٹوسٹ کے نام سے مجھے فائل بھیجا گیا تھا، جس کو میں نے انجانے میں کلک کیا، جس کے بعد میرے آئی فون نے وارننگ بھی دی مگر تب تک میں “پروسیڈ” کرچکی تھی۔

خاتون نے بتایا کہ بعد ازاں میں نے موبائل کو ری اسٹور کردیا لیکن تب تک میرے موبائل کا ڈیٹا جاچکا تھا۔ اس کے مجھے ایک نامور پشتون خاتون ایکٹوسٹ کی جانب سے ٹیلی گرام پر پیغامات موصول ہونا شروع ہوگئیں لیکن اس بار میں محتاط تھی، پشتون ایکٹوسٹ کے نام پر مجھے ایک اپلیکیشن “WeChat” انسٹال کرنے کا کہا گیا، میں نے اپلیکیشن انسٹال کرنے سے اجتناب کیا اور بہانے کرنے لگی کہ “ایپ سٹور” پر یہ اپلیکیشن موجود نہیں جس پر دوسری جانب سے مجھے لنک بھیجا گیا لیکن میں نے لنک پر کلک نہیں کیا کیونکہ اب میں جان چکی تھی کہ دوبارہ مجھے ہیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہیکرز نے میرے ہی نام پر وٹس ایپ نمبر بناکر لوگوں کو پیغامات بھیجنا شروع کیا، چونکہ میرے کنٹیکٹ اور چیٹ ان کے پاس جاچکی تھیں جس سے وہ لوگوں کو میرے نام پر ہیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

جائزہ:
دونوں کیسز کا جائزہ لیا جائے تو ایک طریقہ کار کو مختلف طرز عمل سے استعمال کیا گیا ہے۔ ایکٹوسٹس کو فائل بھیجے گئے، پہلے کیس میں مذکورہ خاتون کو ہیومن رائٹس کے نام پر پروفارمہ کا جھانسا دیا گیا جبکہ دوسرے کیس میں بھی کمپئین کے نام پر فائل بھیجی گئی۔

ہیکرز کی جانب سے مختلف شعبوں کے افراد کو ان ہی کے شعبوں سے متعلق فائل یا لنک بھیج کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ دنوں ایک مقامی بلوچ میڈیا ادارے کے نام پر اپلیکیشن کی خبریں بھی سامنے آئی تاہم بعد ازاں مذکورہ ادارے نے اس کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کے اپلیکیشنز سے احتیاط کریں جبکہ بلوچ صحافیوں اور لکھاریوں کو مضامین کے نام پر فائل بھیج کر نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔

احتیاطی تدابیر:
گوکہ یہاں پیگاسس جیسے بڑے سافٹ ویئر استعمال نہیں ہوئے جو از خود فون کے ہارڈ ویئر میں انسٹال ہوتا ہے اور پیچیدگیوں کے باعث متاثرین کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ ہیکنگ کا نشانہ بن چکے ہیں لہٰذا کسی انجان شخص کی جانب سے کوئی بھی فائل وصول کرنے اور اسے کھولنے سے اجتناب کرکے خود کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کسی غیر متعلقہ شخص سے کوئی لنک وصول کرنے پر کلک نہ کرنے پر محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جن افراد کو اپنے فون نشانے پر ہونے کا خدشہ ہو انہیں اپنے زیرِ استعمال ڈیوائسز ہر کچھ عرصے بعد تبدیل کر لینی چاہییں۔ علاوہ ازیں ذاتی استعمال اور ایکٹوزم یا کسی شعبے کے حوالے سے استعمال ہونے والے رابطوں کیلئے الگ ڈیوائسز استعمال کی جانی چاہیے لیکن یہاں انتہائی ضروری امر یہ ہے کہ اگر آپ کا انٹرنیٹ کنیکشن ایک ہے اور ڈیوائسز مخلتف ہیں تو آپ کے ایک ڈیوائس کے باعث دیگر ڈیوائس بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

یہاں ہم نے دوسرے کیس میں دیکھا کہ ٹیلی گرام پر باآسانی ہیکنگ ممکن نہ ہونے پر بلوچ ایکٹوسٹ کو ایک اور غیر معروف اپلیکیشن انسٹال کرنے پر اسرار کیا گیا جس سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ کسی بھی غیرمعروف اپلیکیشن کو استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔

علاوہ ازیں ڈیوائسز، خصوصی طور پر موبائل میں تصاویر یا فائل اور پاسورڈ وغیرہ جتنی کم ہونگی آپ نشانہ بننے پر بھی بہت سی مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔ جبکہ وی پی این اور اینٹی مال ویئر سافٹ ویئر کا استعمال کرکے بھی آسانی سے ہدف بننے سے بچا جاسکتا ہے۔