بلوچ مسلح تحریک، جدت و شدت – جائزہ رپورٹ | باہوٹ بلوچ

1282

بلوچ مسلح تحریک، جدت و شدت – جائزہ رپورٹ

تحریر: باہوٹ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

24 جون، 2023ء، سینیچر کے روز، بلوچستان کے شہر تربت میں ایک بڑا اور غیرمعمولی واقعہ پیش آیا، جس نے پورے خطے میں ہلچل مچا دی۔ جہاں بلوچ لبریشن آرمی نے ایک ‘فدائی’ حملے میں پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا۔

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا کہ تنظیم کی فدائی ونگ “مجید بریگیڈ” نے آج دوپہر کے وقت تربت شہر میں دشمن فوج کے خفیہ اداروں کے ایک “ہائی ویلیو” قافلے کو فدائی حملے میں نشانہ بناکر، دشمن کو شدید جانی و مالی نقصانات سے دوچار کردیا۔

یہ حملہ مجید بریگیڈ کی خاتون فدائی سمعیہ قلندرانی بلوچ نے سر انجام دی۔ بی ایل اے ترجمان نے بتایا کہ پچیس سالہ سمعیہ قلندرانی کا تعلق صحافت کے پیشے سے تھی، وہ پانچ سالوں تک بلوچ لبریشن آرمی کی میڈیا ونگ (ہکل) سے خدمات سرانجام دیتی رہی اوراس دوران بی ایل اے میڈیا ونگ کو مضبوط اور پر اثر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

سمعیہ بلوچ دوسری بلوچ فدائی خاتون تھی، جنہوں نے کارروائی سرانجام دی۔ قبل ازیں شاری بلوچ نے کراچی میں فدائی حملے میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے چینی ارکان کو نشانہ بنایا تھا۔ مذکورہ دھماکے کے نتیجے میں چینی شہریوں سمیت پاکستانی فورسز اہلکاروں کو جانی نقصانات اٹھانے پڑے۔

تربت حملے کے محض دو مہینے گذرنے کے بعد 13 اگست 2023 کو بلوچستان کے اہم ساحلی شہر گوادر میں صبح 9:18 بجے کے قریب مسلح افراد نے چینی شہریوں کے قافلے کو نشانہ بنایا، حملہ آور دو گھنٹوں سے زائد قافلے کو روکنے میں کامیاب ہوئے اور قافلے میں شامل چینی شہریوں اور پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو نقصان پہنچایا۔

مذکورہ حملے کی ذمہ داری بھی بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان میں کہا کہ یہ حملہ بی ایل اے کی آپریشن زرپہازگ کا تیسرا حصہ تھا جبکہ اس آپریشن کو بی ایل اے مجید بریگیڈ کے دو جانباز فدائین نوید بلوچ عرف اسلم بلوچ اور اور مقبول بلوچ عرف قائم بلوچ نے سرانجام دی۔

بلوچ لبریشن آرمی کے دونوں حملوں میں ٹارگٹس کا چناؤ اہمیت کی حامل ہے؛ تربت میں پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اعلیٰ آفیسران کو نشانہ بنایا گیا گوکہ ابتدائی طور پر پاکستان فوج نے حملے میں نقصانات کو چھپاتے ہوئے اس کو پولیس پر حملہ قرار دیا تاہم بعدازاں مصدقہ ذرائع اور سی سی ٹی وی فوٹیج نے واضح کیا کہ حملے کا نشانہ پاکستان فوج کی گاڑی بنی جس میں اعلیٰ افسران موجود تھے۔

گذشتہ پانچ سال کے دوران گوادر میں چینی انجینئروں اور سرمایہ کاروں پر ہونے والے دو خودکش حملوں کے بعد گوادر میں سیکورٹی انتظامات انتہائی سخت کیئے گئے ہیں تاہم گذشتہ سال گوادر حملے میں مذکورہ حساس مقام تک اسلحہ کیساتھ پہنچ کر گوادر پورٹ کی جانب جانے والی چینی انجیئروں کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔ بی ایل اے ترجمان کے مطابق اس آپریشن میں بی ایل اے کی انٹیلیجنس ونگ اور ٹیکٹیکل ونگ نے بھی شرکت کی۔

حملوں پر ایک نظر:

گذشتہ سال بلوچ مسلح آزادی پسندوں نے مجموعی طور پر 612 حملے کیئے۔ مذکورہ حملوں میں پاکستان فوج، تیل و گیس کمپنیوں، معدنیات لیجانے والی گاڑیوں و سائٹس، مواصلاتی ٹاوروں، ریل گاڑی و ٹریکٹس، بیرونی سرمایہ کاروں اور مقامی ‘آلہ کاروں’ کو نشانہ بنایا گیا۔ بلوچ لبریشن آرمی کے سالانہ رپورٹ کے مطابق بی ایل اے نے کل 247 حملے کیئے جبکہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تنظیم نے کل 284 کیئے اور دیگر تنظیموں بی آر جی، بی این اے، بی ایل ٹی، یو بی اے نے تقریباً 81 حملوں کی ذمہ داریاں قبول کیئے۔

تربت اور گوادر حملوں سمیت بلوچ لبریشن آرمی کے خصوصی دستے فتح اسکواڈ نے 14 ستمبر 2023 کی شام کوئٹہ شہر سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ولی تنگی کے مقام پر پاکستانی فوج کے نئے تعمیر کیئے گئے پوسٹوں پر حملہ کرکے انہیں اپنے قبضے میں لے لیا، حملہ آور فوج کا اسلحہ و گولہ بارود بھی اپنے اپنے ساتھ لے گئے۔

بی ایل اے کی اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ (ایس ٹی او ایس) نے بولان کے علاقے مارگٹ میں 11 اکتوبر 2023 ایک کارروائی میں پاکستان کی پیرا ملٹری فورس فرنٹیئر کور کے دو اہلکاروں صوبیدار محمد خان اور سپاہی عبدالرشید کو حراست میں لیا۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ ایک انٹیلی جنس بیسڈ کارروائی تھی۔

تنظیم کے کارروائیوں پر مشتمل سالانہ رسالہ “دک” کے مطابق بی ایل اے کے جنجگوؤں نے گذشتہ سال 9 خصوصی آپریشن سرانجام دیئے جن میں سے پانچ کارروائیاں ‘ایس ٹی او ایس’، دو کارروائیاں فتح اسکواڈ اور دو کارروائیاں مجید بریگیڈ نے سرانجام دی۔

بلوچستان لبریشن فرنٹ نے کولواہ میں 3 جولائی 2023 کو پاکستان فوج کے موٹرسائیکلوں پر مشتمل قافلے کو ایک حملے میں نشانہ بنایا حملے کے نتیجے میں پاکستان فوج کے میجر ثاقب سمیت چھ اہلکار ہلاک ہوگئے۔

بلوچستان بھر میں پاکستان فوج کی تشکیل کردہ مسلح جتھوں کو ڈیتھ اسکواڈز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مذکورہ جتھے پاکستان فوج و خفیہ اداروں کے ماتحت ہوتے ہیں جبکہ شواہد بتاتے ان جتھوں کی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے فوج نے انہیں ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، منشیات فروشی و دیگر کی اجازت دے رکھی ہے۔

7 اگست 2023 کو بی ایل ایف کے سرمچاروں نے بالگتر کے علاقے نلی میں ‘ڈیتھ اسکواڈ’ ارکان کے ایک گاڑی کو آئی ای ڈی حملے میں نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 6 افراد موقع پر ہلاک ہوگئے، ہلاک افراد کی شناخت ڈیتھ اسکواڈ سربراہ محمد اسحاق و ساتھیوں کے طور پر ہوئی۔

گذشہ سال 3 نومبر کو بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے کوسٹل ہائی وے پر ضلع گوادر کے تحصیل پسنی میں بدوک کے مقام پر پاکستانی فوج کی دو گاڑیوں پر مشتمل قافلے پر گھات لگا کر مہلک حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے ایک گاڑی کو آئی ای ڈی حملے میں نشانہ بنانے کے بعد ان پر حملہ کیا، دونوں گاڑیوں میں سوار تمام 14 اہلکار ہلاک ہوگئے جبکہ حملہ آوروں نے ان کا اسلحہ اپنے قبضے میں لے لیا۔

اسی طرح یکم اپریل 2023 ایک حملے میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے زامران کے علاقے ساہ دیم میں پاکستان فوج کے ایک گاڑی کو گھات لگاکر نشانہ بنایا، گاڑی میں سوار تمام چار اہلکار موقع ہلاک ہوگئے جبکہ حملہ آوروں نے ان کے اسلحہ پر قبضہ کیا۔

براس:

بلوچ مسلح آزادی پسندوں کیجانب سے گذشتہ سال ایک اہم پیش رفت اس وقت دیکھنے میں آئی جب رہنماؤں نے بلوچ مسلح آزادی پسندوں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کو مستقبل میں ایک سنگل فوج کے قالب میں ڈالنے کے حوالے سے اظہار کیا۔

براس، بلوچ مسلح آزادی پسندوں کے ایک مضبوط اتحاد کے طور پر سامنے آئی۔ جس نے اپنے قیام ہی سے پاکستان فوج کو شدید نوعیت کے حملوں میں نشانہ بناکر بھاری جانی و مالی نقصانات سے دوچار کیا، ان حملوں میں پاکستان فوج کے کیمپوں پر قبضہ، نیوی اہلکاروں کو شناخت کے بعد ہلاک کرنا، پاکستانی فوجی اہلکاروں سمیت تیل و گیس کمپنی کے اہلکاروں کو ہلاک کرنا شامل ہیں۔

گوکہ گذشتہ سال براس کی جانب سے کوئی حملہ سامنے نہیں آسکا تاہم اس میں شامل بلوچ مسلح آزادی پسندوں تنظیموں کے انضمام و سنگل آرمی کی تشکیل کو اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

لٹریچر:

بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے مسلح کارروائیوں میں گذشتہ چند سالوں میں جس طرح تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہے وہی ان تنظیموں کی جانب سے لٹریچر پر توجہ دی جارہی ہے، ماضی میں جس کا فقدان تھا۔

گذشتہ سال بلوچ لبریشن آرمی کے سینٹرل میڈیا چینل ‘ہکل’ سمیت دیگر چینلز پر 25 کے قریب تربیتی ویڈیوز و کتابیں شائع کی گئیں۔ جن میں جدید ہتھیاروں کا استعمال، شہری گوریلا اسنائپر سے متعلق کتاب، ڈیجیٹل سیکورٹی سے متعلق کتابچہ، فدائی خاتون شاری بلوچ کے متعلق کتابچہ شامل ہیں جبکہ ہتھیاروں سے متعلق تربیتی ویڈیوز کو بلوچستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی دو زبانوں بلوچی اور براہوئی میں شائع کرنا نمایاں ہے۔

یہ تنظیمیں ماہانہ اور سالانہ کارروائیوں پر مشتمل رسالے بھی شائع کرچکے ہیں۔

اسی طرح بلوچ آزادی پسند سربراہان کی جانب سے ویڈیوز پیغام بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ کے ویڈیو پیغامات پر مشتمل دو ویڈیوز گذشتہ سال شائع ہوئے جن میں ایک پیغام میں وہ بلوچ تحریک کے متعلق تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں جبکہ گوادر میں چائنیز انجینئرز پر بی ایل اے مجید بریگیڈ کے حملے کے چند روز بعد ان کا دوسرا ویڈیو پیغام شائع ہوا جس میں وہ چین و عرب ممالک سمیت دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

مذکورہ پیغام میں انہوں نے کہا کہ چین سمیت عرب ممالک، یورپ، کینڈا اور ہمارے ہمسایہ ممالک کو معلوم ہونا چاہیے کہ بلوچ اپنے قومی وسائل کی استحصال کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا، ہماری کسی دوسرے قوم سے کوئی دشمنی نہیں ہے اگر کسی نے بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار کی، نسل کشی میں پنجابی اور پاکستان کا ساتھ دیا تو پھر بلوچ یہ نہیں دیکھے گا کہ وہ کتنی بڑی طاقت اور قوت ہے۔

نقصان پر نظر:

گذشتہ سال مجموعی طور پر 49 بلوچ سرمچار (آزادی پسند مسلح جہدکار) بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جانبحق ہوئے جن میں 14 ارکان بلوچ لبریشن آرمی کے بشمول تین فدائین، 35 ارکان بلوچستان لبریشن فرنٹ کے شامل ہیں۔

بلوچ آزادی پسندوں کو ایک بڑا نقصان سال کے اواخر میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) کے انہدام کی صورت میں اس وقت اٹھانا پڑا جب سرفراز بنگلزئی نے اپنے ساتھیوں سمیت پاکستان فوج کے سامنے ہتھیار ڈال کر پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان انہوں نے کوئٹہ میں بلوچستان کے نگران وزیراطلاعات جان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کیا۔

حکام نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ سرفراز بنگلزئی نے 70 افراد کے ہمراہ ہتھیار ڈالے ہیں تاہم مذکورہ پریس کانفرنس میں محض 18 افراد نظر آئیں، بعض ذرائع کے مطابق حکام کی جانب سے تعداد کو بڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔

سرفراز بنگلزئی کا ہتھیار ڈالنا پاکستانی عسکری حکام کیلئے ایک کامیابی تصور کی جاسکتی ہے لیکن بلوچستان میں جاری تحریک پر نمایاں اثرات نہیں چھوڑ سکتی ہے بلکہ ذرائع کے مطابق گلزار امام کے مبینہ گرفتاری کے بعد بی این اے سے متعدد جہد کار کنارہ کش ہوکر مختلف تنظیموں میں شامل ہوگئے تھے جبکہ سرفراز بنگلزئی کے ساتھ چند افراد تھے اور عملاً بی این اے پہلے ہی سے ختم ہوچکی تھی۔

علاوہ ازیں بلوچستان میں جاری تحریک نوجوانوں پر مشتمل ایک بڑی کھیپ تیار کرچکی ہے جس کے باعث کسی کمانڈرز کی ہلاکت یا گرفتاریاں زیادہ اثرات نہیں چھوڑ سکتی۔

اختتامیہ:

بلوچ مسلح آزادی پسندوں کے حکمت عملیوں میں تبدیلی کے باعث ان کے حملے شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ گذشتہ سال ان کے شدید نوعیت کے حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تربت جیسا شہر ہو یا کوسٹل ہائی، گوادر شہر کا حساس مقام ہو یا کولواہ کا دور دراز علاقہ یا کوئٹہ کینٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ولی تنگی کا علاقہ، سب جگہوں پر بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیمیں متحرک اور شدید نوعیت کے حملوں کی قابلیت رکھتے ہیں۔

پاکستان فوج آزادی پسندوں کیخلاف ڈرون حملوں سمیت بھرپور طاقت اور وسائل کا استعمال کررہی ہے تاہم انہیں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔

بلوچ آزادی پسندوں کے حملوں کے پیش نظر خطے میں پاکستان عسکری مفادات سمیت بیرونی سرمایہ کاری کو مستقبل میں مزید سخت حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جبکہ شاری بلوچ اور سمعیہ قلندرانی بلوچ کے فدائی حملے اس تحریک کے تبدیل ہوتے صورت کو واضح کرتی ہیں۔

بی بی سی اُردو سے گفتگو کرتے ہوئے بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب کا کہنا تھا کہ فدائین بلوچ قوم کے عظیم قومی ہیرو اور قومی سرمایہ ہیں، بلوچ قوم انھیں اپنا نجات دہندہ اور امید سمجھتی ہے، اسی لیے آج ایک بڑی تعداد میں بلوچ مرد اور خواتین عملاً مجید بریگیڈ کا حصہ بن چُکے ہیں اور فدائین حملے بلوچستان کی مکمل آزادی تک مزید جدت و شدت سے جاری رہیں گے۔