یہ قرت العین ہے – محمد خان داؤد

158

یہ قرت العین ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اسے غیرت آئی اور اس نے بھونکتی بندوق سے قرت العین کا سینہ چھلنی کر دیا۔اسے قتل کر دیا۔معلوم ہونے سے پہلے ہی اس نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لی کہ
وہ،،کا ری تھی،،
قتل ہوجانے والی لڑکی کے بھائی نے کہا ہے کہ،،وہ کا ری نہیں تھی پر قاتل خود ہی موالی اور آوارہ ہے،،
اب اس تضاد پہ کیس چلے گا۔وکیل پیسے لیکر دلیل دیں گے۔گواہ گواہیاں دیں گے۔اور جج فیصلہ کریگا۔
پر پو ری عدالتی کاروائی میں وہ مقتول لڑکی موجود نہیں ہو گی۔اس کیس کا بنیاد موجود نہیں ہوگا۔اس لیے مجرم سے لیکر گواہوں تک جس کا جو جی چاہیے گا۔جو دل کہے گا وہ وہی کریں گے اور کہیں گے۔اس یقین سے کہ مُردہ تردید نہیں کرتے۔ملزم بلکہ مجرم کو یہ یقین ہے کہ وہ غیرت کی آڑ میں بچ جائیگا۔

اس لیے میں یہ کالم مقتول لڑکی کے بجائے غیرت پہ لکھنا چاہتا ہوں
غیرت جس کی اُوٹ میں مرد بچ جا تے ہیں۔اور عورتیں مر جا تی ہیں۔اور ان کے قتل مردوں کو معاف کر دیے جا تے ہیں۔اکثر تو یہ قتل عدالتوں تک پہنچتے ہی نہیں۔اس لیے میں سمجھنا چاہتا ہوں کہ غیرت کیا ہے؟وہ بس مردوں کو کیوں آتی ہے؟

ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کوئی لڑکی غیرت میں آکر کلھاڑی سے اپنے مرد کی گردن کو تن سے جدا کر کے خون آلود کلھاڑی کو صوبیدار کی ٹیبل پہ رکھ کر کہتی کہ
،،میرا شوہر کارا تھا میں نے غیرت میں آکر اسے قتل کر دیا ہے!،،
اور وہ غیرت کی آڑ لیکر بچ نکلے۔

پر یہ ممکن نہیں کیوں کہ غیرت بس مردوں کی جاگیر ہے۔اور اس کی حد بس گھر کی چوکھٹ تک ہو تی ہے۔معلوم نہیں یہ مرد اپنی غیرت اس وقت کہاں چھوڑ آتے ہیں جب وہ وئشیا گھروں کی گلیوں میں اپنی موچھوں کو تاؤ دیکر رُلتے نظر آتے ہیں۔اور جب ایسے موقعوں پر پولیس کا چھاپہ پڑتا ہے تو ان کی تصویریں پولیس سپاہیوں کے ساتھ اخباروں میں چھپتی ہیں۔پر میں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ ایسے مردوں کو کارا کر کے قتل کیا گیا ہو۔پر یہ ہی مرد جب اپنے گھروں میں ہو تے ہیں تو معمولی باتوں پر اپنی عورتوں کو مار مر کر ان کا ہلیا بگاڑ دیتے ہیں۔
ایسے مردوں کی ایسی روش کو دیکھ کر امریکا کے نوبل یا فتہ ادیب جان اسٹین نے اپنے ناول،،دی پرل،،میں لکھا تھا کہ
،،مرد آدھا پاگل اور آدھا خدا ہوتا ہے!،،

سالن میں نمک کم ہونے پر وہ عورت کو پلیٹ پھینک کر مارتا ہے۔اور جب اسے عورت کا کوئی جواب اچھا نہیں لگتا تو وہ عورت کو بالوں سے کھینچ کر آنگن میں گھسیٹتا ہے۔اور اس کے سر کو دیواروں سے ٹکرا کر اسے لہو لہو کر دیتا ہے۔پر انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا۔کسی کویہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ ان کے ہاتھوں کو روکے۔بس گھر کے چھوٹے معصوم بچے رو تے رہتے ہیں۔اور ایک غیرت مند مرد ایک کمزور عورت کو غیرت کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔

پر وہی مرد تھانے میں پولیس کے ہاتھوں جانوروں کی طرح پٹتا ہے۔پر اسے غیرت نہیں آتی۔
اس کے مونچھیں نوچی جا تی ہیں پر اسے غیرت نہیں آتی۔
اسے مرچ ڈالے جا تے ہیں اسے غیرت نہیں آتی۔
پر اسے بس اپنے سب سے قریب رشتے والی عورت پر غیرت جا جن چھڑتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ،،کاری،،کا الزام وہ مرد عورت پر قتل کرنے سے پہلے لگا تے ہیں یا بعد میں؟
پر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔پر،،کا ری،،ایک ایسی چادر ہے جو مردوں کے منہ پر نقاب ڈال دیتی ہے۔پر شاید وہ الزام کالی چادر سے اوپر کا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ،،کا ری،، بذاتِ خود ہما رے سماج کا ایک قانون ہے۔وہ قانون جس کے استعمال کا حق ہرہر مرد کو ہے۔اور یہ عدالتیں بھی مرد کی اس جنونی کیفیت کو رعائیت کی نظروں سے دیکھتی ہے۔

اس طرح آج تک سیکڑوں عورتیں،سیکڑوں معصوم لڑکیاں کلھاڑیوں سے تکڑے تکڑے ہو تی رہی ہیں۔اور اپنی خونی کاروائیوں کو پورا کر کے موچھوں کو تاؤ دے کر اس بات کا اعلان کرتے رہیں ہیں کہ یہ انہوں نے غیرت کے نام پہ کیا ہے۔ایسے ماحول میں وہ بھائی جن کی بہنیں قتل ہو جا تی ہیں چیختے رہتے ہیں کہ،،وہ کا ری نہیں تھی،،پر ان کی ایسی چیخ کو کوئی نہیں سنتا۔

ایسی لڑکیوں کے قتل کے بعد غیرت مند مرد کسی اور لڑکی کی تلاش میں نکلتے ہیں سہرہ باندھ کر ہاتھوں میں مہندی لگی کسی اور رانی کو گھر لے آتے ہیں۔اور وہ رانی بھی مستقل اسی خوف اور ڈر میں رہتی ہے کہ
،،اس پہ کبھی بھی کاری کا الزام لگ سکتا ہے اور وہ بھی لہو لہو ہو سکتی ہے،،


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں