شرح فراق آخر ہے کیا،غم کا بیاں عجب ہے کیوں؟ ۔ محمد خان داؤد

189

شرح فراق آخر ہے کیا،غم کا بیاں عجب ہے کیوں؟ 

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ان ہاتھوں میں ماں کی نرم بہائیں ہوا کرتی تھیں

یہ ہاتھ ماں کے گال ٹٹولہ کرتے تھے

ان ہاتھوں پر ماں کی محبت کے بوسے نقش ہیں

یہ معصوم ہاتھ ماں نے کئی بار چومیں ہیں،کئی بار کیا پر پیدائش سے فراق تک چومیں ہیں

یہ معصوم ہاتھ سو جا تے تھے اور خوابوں میں ان ہاتھوں پر تتلیاں آکر بیٹھ جایا کرتی تھیں

ان ہاتھوں نے ماں کے خوبصورت ملائم گال چھوئے ہیں اور ماں نے اپنے ہاتھوں سے ان کی دو چوٹیاں بنا ئی ہے

ماں نے ہاتھوں سے آٹا گوندا ہے تو ان پیارے معصوم خوبصورت ہاتھوں نے دو چھوٹی چھوٹی روٹیاں بنائی ہیں۔محبت کی روٹی جس کو آج تک کوئی آگ نہیں پکا سکی۔

یہ معصوم ہاتھ ماں کا دامن تھامیں شال کی گلیوں میں چلے ہیں

ان معصوم ہاتھوں نے بس اپنے اسکولی کتاب نہیں اُٹھائے،پر ماں کی محبت بھی اُٹھائی ہے

ان معصوم خوبصورت ہاتھوں نے بارش میں بوٹیاں پکڑی ہیں۔یہ بارش میں بھیگے ہیں۔شال کی گلیوں میں پڑتی برف سے کھلونے بنائے ہیں،ان کے معصوم پیر ہی تتلیوں کی تلاش میں نہیں گئے،پر تتلیاں آپ ہی ان خوبصورت ہاتھوں پر بیٹھ گئی ہیں۔ہاں یہ ہاتھ دو خوبصورت تتلیوں کے ہیں۔تتلیاں آپ آکر ان ہاتھوں پر اپنا رنگ چھوڑ جا تی ہیں۔یہ محبت کے ہاتھ ہیں۔وصل کے ہاتھ ہیں۔دھرتی سے جُڑجانے کے ہاتھ ہیں۔اگر ان ہاتھوں میں محبت نہ ہو تی تو کیوں ماحل ببراگ سے جُڑتی؟

دھرتی اور محبت کا میلاپ ہوا تو یہ معصوم ہاتھ دھرتی پر نمودار ہوئے

یہ عشق کی کہانی کے ہاتھ ہیں

یہ دھرتی اور سکھی کے ہاتھ ہیں

ہاں!ہو سکتا ہو یہ بندوق اور کتاب کے ہاتھ ہوں

وعدہ اور بوسہ کے ہاتھ ہوں!

محبت اور میراث کے ہاتھ ہوں!

محبت کی پہلی پہلی کہانی کے ہاتھ ہوں

وہ کہانی جو پو ری ہو تی ہے

وہ کہانی جو ادھوری رہ جا تی ہے

یہ ادھوری کہانی کے پو رے ہاتھ ہیں

علم لیے،قلم لیے،اور دھرتی کا پرچم لیے

ہو سکتا ہے یہ فراق کے ہاتھ ہوں

ایسے ہاتھ جن کے لیے شاعر لکھا کرتے ہیں

”یوں تو فراق ِ یار کو

گذرا نہیں بہت سمے بہت

دل کا عجب حال ہے“

پر بہت دور سے مجھے یہ عشق اور دھرتی کے ہاتھ معلوم ہو رہے ہیں

بہت ہی پیارے اور بہت ہی میٹھے

وہ ہاتھ جن ہاتھوں میں ماں کی محبت ہوا کرتی تھی آج ان ہاتھوں میں ان کے قد سے بھی بہت بڑا بینر ہے جس پر بہت ہی سیدھی اور بہت ہی مختصر تحریر درج ہے کہ”ہماری ماں کہاں ہے؟!“

وہ جو ماں کے پلو سے بندھی ہوا کرتی تھیں،وہ آج بس اس بھاری بینر کے طلے بندھی ہو ئی ہیں۔میں،آپ اس بینر کے درد کو نہیں جان پائیں گے،ہمیں یہ معض ایک بڑے سے کاغذ پر لکھی تحریر معلوم ہو، پر وہ معصوم ہاتھ جن ہاتھوں میں یہ سوالیہ(؟) بینر ہے وہ ہاتھ جان گئے ہیں کہ اس بینر میں کیسا درد ہے،یہ دیس جانتا ہے کہ اس بینر میں کتنا درد ہے۔اور وہ مائیں،بہنیں،بیٹیاں جانتی ہیں کہ ایسی مٹتی،دکھتی درد کی تحریروں میں کتنا درد ہے۔ابھی تو وہ بہت معصوم اور چھوٹے ہاتھ ہیں،ان ہاتھوں کی انگلیوں سے بڑی تو وہ تحریر ہے جو اس بینر پر آویزہ ہے۔پر یہ بلوچ دھرتی کا مقدر بن گیا ہے کہ جتنی چھوٹی آنکھیں اتنے بڑے آنسو۔جتنے چھوٹے پیر اتنا بڑا سفر،جتنا چھوٹا دامن،اتنا بڑا درد جتنی معصوم آنکھیں اتنا بڑا رتجگااور جتنے چھوٹے ہاتھ اتنا بڑا درد سے بھرا بینر

آج تتلیوں کے ہاتھوں میں درد سے بھرا بینر ہے

کیا وہ یسوع ہیں کہ درد جھیلیں؟

اگر وہ یسوع نہیں تو مریم تو ضرور ہیں

اگر مریم بھی نہیں

تو یسوع کی بہنیں اور مریم کی بیٹیاں ضرور ہیں

‏Cancer Wardکے مصنفAleksandr Solzhenitsynکا یہی خیال رہا ہے کہ طاقت ور چھوٹی قبر میں ہمیشہ بڑا گناہ دفن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔طاقت ور نے ماحل کی گمشدگی کا بڑا گناہ کیا اور پھر اس میں ریا ستی میڈیائی طاقت سے بلوچ سردار کی لاش کو دفنانے کی ناکام کوشش کی!

بلوچ عوام جب ماحل کے لیے سڑکوں پر نکل رہے تھے تو اس بوسیدہ نظام نے ایک نئی قبر تلاش کی اور اس میں اچانک ایک اور عورت نمودار ہوئی جس کے ہاتھوں میں مقدس کتاب تھی،وہ قتل ہوئی،وہ زندہ ہوئی،اور اس شور میں ہم سے ماحل بھول گئی ریاست اور ریاستی میڈیا چھوٹی قبر میں بہت بڑی لاش دفنانے میں کامیاب رہی اور ان ہاتھوں میں وہی بینر رہ گیا جو درد کا بینر ہے جو تلاش یار کا بینر ہے

ہم پوچھنے یہ نکلے تھے کہ ماحل کہاں ہے؟اور ہم جب گھر پونچھے ہمارے دامنوں میں ریا ستی سرداری داغ لگا ہوا ہے۔کیا سرداری داغ ایسا نرم ہے کہ یہ کچھ احتجاجوں اور کچھ میڈیا خبروں سے دھل جائے گا؟

پر ہمیں تو اس ماحل کی بات کرنی چاہیے جس ماحل کا گناہ بس یہ ہے جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ

”اسان تے آندہ

الزام جگھ جئین جا!“

”ہم الزاموں کی زد میں ہیں

اس لیے کہ ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں!!“

ہمیں ان ہاتھوں کے لیے بات کرنی چاہیے

جو فراق میں وصل کے ہاتھ ہیں

جو محبت میں بوسے کے ہاتھ ہیں

جو روشنی روپ کے ہاتھ ہیں

جو بارش کے قطروں کے ہاتھ ہیں

جو شال کی دل کے ہاتھ ہیں

جو بہت پیچھے رہ جانی والی محبت کی باتوں کے ہاتھ ہیں

جو بہت معصوم ہاتھ ہیں

جو اکیلے اکیلے ہاتھ ہیں

نا تمام۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں