گوادر کو باڑ لگا کر بلوچستان سے الگ کرنے کی کوشش قابل قبول نہیں- گوادر جرگہ

258

 

گوادر میں منعقد ہونے والے جرگے نے گوادر شہر کوباڑ لگا کر باقی بلوچستان سے الگ کرنے کی کوشش کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ یہ جرگہ گزشتہ روز بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں اپوزیشن جماعتوں کے مقامی نمائندوں نے منعقد کیا۔

جرگہ کا بنیادی مقصد سیکورٹی کے نام پر گوادر شہر باڑ میں ڈالنے کی حکومتی منصوبہ کو روکنا اور گوادر کے دیگر مسائل کو اجاگر کرنا تھا۔

جرگہ میں سیاسی و مذہبی جماعتوں، ماہیگروں اور شہریوں نے شرکت کی۔

جرگہ میں اپوزیشن جماعتوں کے مقامی نمائندوں نے کہا کہ ترقی کے نام پر گوادر کو بلوچستان سے الگ کرنے کا منصوبہ ہمیں قبول نہیں ہے۔

انہوں نے حکومت کے اس فیصلہ کو مسترد کیا اور کہا کہ سیکورٹی کے نام پر گوادر کے شہری محصور ہو کر رہ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ترقی کے مخالف نہیں اور نا ہی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں لیکن گوادر کو باڑ لگا کر سیل کرنا ہمیں اور گوادر کے عوام کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ گوادر میں ترقی کے نام پر جتنے بھی منصوبے شروع کئے گئے ہیں ان تمام منصوبوں سے یہاں کے مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف یہاں ترقی کے بلند و بانگ دعوے کئے جارہے ہیں مگر دوسری طرف یہاں بے روزگاری کا دور دورا ہے۔

یہاں کے لوگوں کو علاج کیلئے سہولیات اور بچوں کے تعلیم کیلئے ادارے موجود نہیں، شہر میں جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں، عوام کا معیار زندگی روز با روز پست سے پست ہوتا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان سہولیات کی فراہمی کیلیئے حکومت کے پاس بجٹ اور فنڈزدستیاب نہیں لیکن باڑ کیلئےراتوں رات بجٹ دستیاب ہوجاتی ہے۔

مقررین کا مزید کہنا تھا کہ بلوچوں کے پاس پہلے سے کچھ نہیں ہے وہ مفلوک الحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں بلوچوں کے پاس جو دو چیزیں موجود ہیں ‘عزت نفس’ اور ‘زمین’ لیکن ان دونوں اوصاف سے بھی بلوچوں کو محروم کیا جارہا ہے۔

مقررین نے بلوچستان کے تمام پارٹیوں خصوصاً بی این پی، نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کے سربراہان سے اپیل کی کہ وہ گوادر کے موجودہ حالات پر سیاست کو ایک طرف رکھ کر متحد ہوجائیں۔

خیال رہے کہ 20 اپریل 2015ء کو پاکستان میں چینی صدر کے دورے کے دوران، مختلف شعبوں میں مفاہمت کی 51 یادداشتوں پر چین اور پاکستان کے درمیان منصوبوں پر دستخط ہوئے تھے۔6 راہداری کے بڑے منصوبے جو دوطرفہ تعاون سے ہیں۔

سی پیک کا مرکزی اور اہم پوائنٹ گوادر ہے، لیکن گوادر کے مقامی باشندوں سمیت بلوچستان کے عوام سی پیک کو ترقی کے نام پر استحصال کہتے ہیں اور اسکی مخالفت میں بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں سمیت آزادی پسند مسلح تنظیموں کا سحت ترین ردعمل رہا ہے۔

ناخدا مید اُمتان نے بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ سی پیک نے ماہیگروں سے انکا منہ کا نوالہ چھین لیا ہے. وہ بتاتے ہیں جب یہاں ترقی کے نام پر باہر کے لوگ نہیں آئے تھے تو گوادر کے ماہیگر خوشحال اور پرسکون زندگی گزار رہے تھے. جب چاہتے ہم شکار کے لیے نکل جاتے۔

وہ کہتے ہیں اب ایسا نہیں ہے اب وہ (سیکورٹی اہلکار) طے کرتے ہیں کب، کہاں اور کس وقت ہمیں شکار کرنا ہے۔

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک نے گزشتہ ہفتہ گوادر دورہ کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گوادر باڑ کا منصوبہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ باڑ کا منصوبہ ماسٹر پلان کا حصہ بتاکر غلط بیانی کی جارہی ہے۔

راتوں رات باڑ لگا کر ساحل گوادر کو بلوچستان سے جدا کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا ہے۔

گوادر پریس کلب سے وابستہ صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گوادر باڑ منصوبہ بلوچستان حکومت کا نہیں ہے بلکہ چین کی خواہش ہے گوادر مکمل باڑ میں ہو وہ بتاتے ہیں کہ یہاں جو حکومتی وزرا مشیر آکر باڑ کے حق میں پریس کانفرنس کرتے ہیں وہ ہمیں آف دی ریکارڈ بتاتے ہیں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں کیا ہونے جارہا ہے۔