دردِ مشترک – فریدہ بلوچ

699

دردِ مشترک

تحریر: فریدہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کتنی اذیت ناک ہے نا کہ شدت کی سردی ہو یا ازل کی گرمی دریچے سے آتے اُن موسموں کے احساسات جب وجود کو چھوتی ہیں تو روح پرواز کرنے لگتی ہے، جسم بے جان ہوجاتی ہے۔ ایسے حالاتِ زندگی مجھ جیسے بہت سوں کی ہوتی ہے کیونکہ ہم ایک ہی غم سے گذر رہے ہوتے ہیں، ان تمام موسموں کے بیچ کی بس ایک ہی غم ہے کہ بھائی دور زندان میں کس حال میں ہونگے، کیا جب اسے سردی محسوس ہوتی ہوگی کوئی اسے گرم کمبل دیگا یا اسے جب گرمی میں پیاس لگتا ہوگا کوئی اسے اسی طرح گلاس میں پانی لاکر دیگا جیسے میں دیا کرتی تھی۔

میں اب فقط اپنی ہی نہیں، حسیبہ کے درد سے بھی واقف ہوں، میں اب فرزانہ کے غم، نسرین و سیماء کے انتظار کو بھی محسوس کرسکتی ہوں اور نا میں فیروز کے انتظار میں فاطمہ کے بے چینی سے انجان ہوں۔ اس دریچے سے آنے والی تمام احساسات میں غم، انتظار، جستجو ہیں، جب ہوائیں چلتی ہیں تو مجھے ان ہواوں میں مجھ جیسے ان بہنوں کی پکار سنائی دیتی ہے جو میری طرح بھائی کی انتظار و اسکے لوٹ آنے کی آس لگائی بیٹھی ہیں۔

ہم بہنوں کے زندگی کے جو خوبصورت پہلو ہوتے ہیں وہ ہمارے اپنوں سے ہی جڑے ہوتے ہیں، ان تھکاوٹوں کے پیچھے جب ہم مسکان دیکھا کرتے تھے وہ شفقت بھری بھائی کی محبت زندگی میں سکون اور حوصلوں کی ضرورت کو پورا کیا کرتی تھی، ان کے سواء زندگی بے رنگ ہوجاتی ہے، جیسے ہم زندگی جینا ہی بھول گیے ہوں یا زمین پر کسی اور کے وجود کی آہٹ ہی سنائی نہیں دیتی جیسے ہم ہی ان اکیلے اور کالی زندانوں میں دور انسانوں سے بند پڑے ہوں اور ہمارے آس پاس کوئی نہیں، نا ہمیں دیکھنے سننے والا کوئی موجود ہے ۔

حسیبہ میں تم سے مخاطب ہوں، جب تم کوئٹہ کے سڑکوں پر کھڑی ہو کر چلاکر بولتی ہو تو مجھے یوں محسوس ہوتی ہے کہ میرے دل میں آنے والی وہ تمام باتیں تمہاری زبان سے ادا ہورہی ہوں، اسی غم اور شدت کے ساتھ اور نسرین کی آنکھوں سے بہتے آنسوں جیسے میرے ہی غموں کے درد بیان کرتی ہے، یقیناً ہم سب کا غم ایک جیسا ہی ہے پر اس سے بڑ کر ہم ایک قوم ہونے کے وجہ سے ایک ہی درد رکھتے ہیں شاید ہم میں سے کسی میں ایک چیز مشترک نا ہوتی پھر بھی ہم ایسے ہی ایک دوسرے کے غموں کو اسی شددت سے محسوس کرسکتے تھے۔

اس قفس میں جہاں میرے قوم کے ہزاروں فرزند اذیت سہہ کر بھی وطن کا غم اٹھائے ایک ہی ظالم کے ہاتھوں ایک جیسے ظلم و تشدد سے سے گذر رہے ہوں تو وہاں ان کے انتظار کی غم میں ہمارا درد کیسے مختلف ہوسکتا ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں