کیوں تسلیم کروں ہرنی آنکھیں بند ہوئے – بانڑی بالیچی

154

کیوں تسلیم کروں ہرنی آنکھیں بند ہوئے

تحریر: بانڑی بالیچی

دی بلوچستان پوسٹ

ہرنی آنکھیں کیسے بند ہوتے ہیں، وہ تو جگمگا رہے ہیں، آسمان میں تارے بن کر ہرنی بالاد کیسے سرد پڑ جاتی ہیں، وہ تو گلزمین سے گواڑخ کی طرح پھر سے مہک اٹھے گا ریشمی بال کیسے خشک ہونگے وہ کمبل بن کر ہر زمین زادے کو اوڑھ لے گی زندگی تو ایک خواب کبھی بھی کسی بھی وقت جاگنا پڑتا ہے جنہیں منزلوں کی فکر ہو وہ کیسے سو سکتا ہے جنہیں خواب میں خوب صورت خواب سجانے ہوں وہ کیسے غفلت میں رہے گا وہ تو جاگتا رہتا ہے اسے جاگنا پڑتا ہے ۔

کریمہ محراب یعنی میری بچپن کے کھیل کی ساتھی وہ کیسے ہار مان جاتی ہے، میں نہیں مانتی کل ہم تمپ بالیچہ مند کے سارے دزگہار ایک ساتھ تھے ہلو ہالو گارہے تھے، اپنی گڑیا کی شادی کی بارات کا تربت سے انتظار کررہے تھے ۔

وہ نیلی آنکھوں والی ہرنی کبھی پہاڑی سے کبھی روڈ پر بارات کو دیکھ رہی تھی، ہمیں اور بھی کام تھے، باراتی کو پانی اور کھانا بھی کھلانا تھا، مند سے آئے دزگہار واجہ کے چادر سے ڈھانپے مہندی سے گڑیا کو نہلا رہے تھے۔

آہ نیلی آنکھوں والی ہرنی! ایسی کیا جلدی ہے ، تھوڑی دیر ٹھر جاو، گڑیا کی شادی ہونے دیں بارات کو منزل تک پہنچنے دیں پھر ہم دروت سے آپ کو رخصت کرتے۔

تمپ مند بالیچہ کی رنگیں، صبح زرد آلود شام آپ کی راہ تک رہے ہیں، کب اچھل کودو گی ہرنی ہرنی کیا آپ کو مچکدگ میں لیئب یاد نہیں ؟مچکدگ بھی خشک ہے کاریز کب کے پانی دینے سے قاصر رہے ہیں ہرنی آپ کے آنے سے پھر سے مچکدگ کو سبز شاداب کرنا تھا پھر سے مندی لڑکیاں ہالو هلو کرکے واجہ کے چادر سے آپ کی سواگت کرتے۔

ہرنی کیا آپ منزل مقصود تک پہنچ گئے ہرنی فدا چوک میں آپ کی نرم ملائمی آواز آج بھی گونج رہی ہے، ہرنی دزگہار وں نے خوبصورت تحائفیں تیار کر رکھے ہیں ہرنی اب آپ نے جلد بازی ایسی کی اب هلو ہالو کے بارات موتک پیش کر رہے ہیں، صبح سحر اشکوں تک آنسو بہا رہی مچکدگ کے خشک بازؤں سے بھی آنسو ٹپک رہے ہیں، ہرنی آپ کی قہقوں سے جی اٹھنے والی کہریز ماتم پیش کررہی او ہرنی آنکھوں والے کیسے بولوں کہ ہرنی آنکھیں ابدی نیند سوگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں