سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 49 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

261

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | پھرگوآدر میں

ہم تھکے ہوئے تھے، مگر جب مغربی، جنوبی اور وسطی بلوچستان کے آرٹسٹ، شاعر اور دانش ور مشرقی بلوچستان کے ایک ہم قوم سے ملتے ہیں تو پھر محفل نے تو جمنا ہی ہوتا ہے نا۔ سو جم گئی۔ ایک چھوٹا سا شاہ عنایتی ”دائرہ“ فوراً ہی قائم ہوگیا۔لہٰذا ایک غیر رسمی مشاعرہ ہم نے کر ڈالا۔

مشاعرے کی بھرپور فصل کی کٹائی کے بعد اب ہم اُس کے بچے ہوئے اکا دکا خوشے (پڑنج) جمع کررہے تھے کہ منظر نامہ بدل گیا۔ میوز نے اپنے دوسرے بچے کو آگے کردیا۔ یہ کراچی سے آیا ایک یار باش اور فن کا دل دادہ نوجوان روفیؔ تھا۔ اس نے ایک کتاب فرش پر رکھ دی۔ سب کی نظریں تجسس میں اُس کی اگلی حرکت کے لیے اُس پر ٹکی ہوئی تھیں۔ ہماری حیرت میں اُس نے اس کتاب کو طبلہ بنا کر اُسے بجانا شروع کردیا۔ ………… یاد ہے، تُرک دربار میں بے تیغ چاکر نے مدِمقابل بدمست ہاتھی پر بلی کا بچہ پھینک کر کے اُسے پسپا کردیا تھا؟!

روفی کا ہنر کار ہاتھ لگے تو طبلہ محبوبہ کے کان کے جھمک کی ژلک ژلک جیسا مدہر ساز کیسے نہ بجائے گا۔ روفی اُس برادری سے تعلق رکھتا ہے جس نے پانچ سو برس قبل دو لَوبر ڈرز کے معدے بھرنے اور ستر ڈھانپنے کا سامان کیا تھا۔ مجھے تصور میں دشمن گوۂرام لاشاری کی پناہ میں آئے بیورغ رند اور اُس کی محبوبہ کے لیے لایا ہوا لباس اور ذائقہ دار کھانے روفی کے ہاتھ میں دکھائی دیے۔ اور تصور ہی میں میں نے اُس کے ہاتھ چومے: بطور بیورغ کے میمن کے بھی اور بطور فن کار کے بھی۔

روفی کا طبلہ دھم دھم کرے تو فی البدیہہ انداز میں گلے کھنکھارنے لگتے ہیں۔ کوئی مدھم مدھم گنگنانے لگا، کوئی ہلکی سیٹی سے ساتھ دینے لگا، کوئی گلے کی بجائے گردن کا رقص کرنے لگا، اور روفی دونوں ہتھیلیوں سے طبلہ کاری کرتے ہوئے اپنی گردن کو پورب پچھم پنڈولم بنانے لگا……

اور پھر مردِ میدان بجار کو گانے کی جیسے بشارت ہو گئی۔ وہ سنتیاگو سٹیڈیم میں وکٹر ہارا بن کے اترا تو پھر گلزار ساتھ ہولیا۔ عمران ثاقب مل گیا، پروین، نوشین ………… سب The Beatles بینڈ کے ممبر بن گئے۔ گلوکاری شروع ہوئی تو شیطان اپنے اصلی اڈے یعنی دارالحکومت کی طرف دُم دبا کر فرار ہوگیا۔

بلوچی، اردو، غزل، سوت، فلمی، غیر فلمی، انقلابی، ترانے، گیت………… بجار کے ذہن میں ذخیرہ کرنے کی وسیع صلاحیت موجود ہے اور گلے میں ایسی بیورغی تاثیر کہ ”مڑا گاہ قندہار“ کے شاہی محل میں چاندی سی الھڑ جوانیاں مچل مچل جائیں۔
ایسی حسین محفل میں داد کے نام پرگیدڑی اور کوّا گیری کرنا دخل در معقولات سے بھی بڑھ کر ہے، روزہ مکروہ ہونے جیسا۔
بجار …… دُردانغیں بجار سے ہم نے بلامبالغہ دو درجن سے زائد گانے جھومتے لہکتے سنے ………… اور میں نے بے ساختگی میں کہا: ہم مریوں میں بجارانڑیں‘ گزینی کا تفرقہ ڈالا گیا تھا تو ہر غیر بلوچ افسر پوچھتا آپ مریوں میں بجارانڑیں ہو یا گزینی ہو؟۔ میں بجارانڑیں ہوتے ہوئے بھی اس سوال کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا تھا۔ اس لیے کہ اس سوال کے پیچھے سوال کنندہ کے دل میں مسرت کا بپھرتا سمندر نظر آتا تھا۔ جمہوری تحریک کے دشمن، تحریکوں میں بجارانڑیں گزینی کا زہر انڈیلتے رہتے ہیں۔ کبھی اِس شکل میں کبھی اُس صورت میں۔ اب آرٹسٹ بجار کو اس فن کاری کے ساتھ دیکھا تو زور سے چیخ بیٹھا: ”میں بجارانڑیں ہوں“۔

اور ایسے مواقع پر گھڑی کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو کلائی میں بے کار بندھی ہوئی ہے۔ آنکھیں موسیقی کے ساتھ ہارمنی پیدا کرچکنے والے کانوں میں ضم ہوجائیں تو روح کائنات کے ساتھ مکمل طور پر Synchroniseہوجاتی ہے۔ تب وقت کو گننے کا بور کر دینے والا عمل موقوف ہوجاتا ہے۔ گھڑی اشرف المخلوقات میں ڈھل جاتی ہے۔ اُس کی پھرکیاں، اس کی سوئیاں اور سوئیوں کی معدومیت کی حد تک خفیف ٹک ٹکیں، طبلہ کے ساتھ سنگتی میں ڈھل گئیں۔ اب یہ وقت بتانے کی بے رحم مشین نہ تھی، موسیقی کا مقدس آلہ تھی۔

ہم ٹائم سے بہت دور کبھی پانچ دریاؤں میں اٹھکیلیاں کررہے تھے، کبھی بھنبھور کی دھوبن کے ہاتھ سے ہاتھ ملائے چل رہے تھے، کبھی سخی سرور کی ”ملخ“ کے نور میں نہا رہے تھے، کبھی مرشد کی تقلید میں اپنے پر گناہ پنچوں کے ساتھ مقدسات کی جھالریں ہلا رہے تھے، اور کبھی گورغیں بلوچستان کے قدموں میں مہر کی تجدید کررہے تھے۔ موسیقی ”گداز ساز“ فیکٹری کا سب سے بڑا پہیہ ہوتی ہے۔

حسن مولانغوں کے بیچ میرا حسن موڈو بننا ہمیشہ سے یقینی رہا۔ یہ تو غنیمت ہے کہ فطرت سے میری یاری ایسی بنی رہی کہ لنگوٹ کس کر کسی ارینا میں اترنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی فطرت عرض داشت سمجھ لیتی ہے۔ پردہ پال ہے مولا!!
میں دیکھ سکتا تھا کہ جیئند جمالدینی، ضیا شفیع اور عابد میر بھی اپنے اپنے مقدر کی پیشانی پڑھ رہے تھے …… ہفت جہاں گم۔عشق، پیراکی کے ورلڈ چیمپیئنز تک کو ڈبو دینے کی کرامت کا خاوند ہوتا ہے۔

کس وقت کھانا آیا، ہم نے کیا کھایا، احساس ہی نہ ہوا ………… ہم جو بِن پیے بھی کوہساروں کے نایاب بھنگ کا سمندر پیے ہوئے تھے، اتاہ خامشی اور استغراق میں پیٹ بھرنے کا جبلتی کام سرانجام دیتے رہے۔ خاموشی اس لیے کہ کائناتی ہینگ اوور کے تحلیل ہونے کا خدشہ تھا۔ کوئی اس کیف کیفیت، اس ٹرانس سے نکلنے کی خواہش نہیں کرسکتا تھا۔ سب ”کچھ نہیں“ بن گئے تھے، سب ”سب کچھ بن“ بن چکے تھے۔ مشیتِ ایزدی کا یہ فیصلہ کتنا اچھا فیصلہ تھا جس کے تحت اس نے آدمی کو سماجی جانور قرار دیا تھا۔

ہم ایک طویل سفر، بہت سارے مقامات کے دورے، بے شمار دوستوں سے ملاقات، ایک شان دار مشاعرہ گزارنے، ایک غنی اور مغنی محفل موسیقی سے اپنا حصہ روح کے پھیپھڑوں میں جذب کرکے اور تازہ مچھلی کی بے شمار ڈشوں کی دعوت اڑا کر، رات کے کسی پہر تھکے ہارے ریسٹ ہاؤس میں عظیم سمندر کی پُر مہر لوریوں میں اُس کے پہلو میں ایک پرسکون نیند سوئے۔
لوری کے بول تھے:
”راج بلوچی ئے پہ وسغا جوانیں“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔