سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 48 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

580

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | پھرگوآدر میں

ہم گوادر، بخشی کے بھتیجے بہرام کے گھر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں تو ایک ”مچیں پور“ سجا ہوا تھا۔ کراچی کی بہت اچھی شاعرہ شہناز نور کو ہم نے پہلے نہ دیکھا تھا نہ پڑھا تھا، لہٰذا سنا بھی نہ تھا۔ میں نے اُسے یہ بتایا تو وہ بالکل بھی حیران نہ ہوئی۔ اُسے پتہ تھا کہ اِس دیس میں علم و فن کی دنیا کے ستاروں پہ کمندیں پھینکنے والوں کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے بہت سے ”خلیفے“ بھی موجود ہیں۔ لہٰذا، وہ بس مسکرادی۔ شہناز نور میری طرح بے وفا نہیں، اس نے تو ابھی تک سگریٹ سے دوستی نبھائی ہوئی ہے۔ ………… ہم نے سب سے پہلے اُسے سنا، اُس کی تکریم کی۔

یہاں ایک عدد اور نور بھی موجودتھا۔ مگر وہ ”تھی“ نہیں، ”تھا“، تھا۔ وحید نور جس نے کراچی کے کسی ادبی سیمینار میں میرا مذکر و مؤنث سے خالی ایک مقالہ سن رکھا تھا …… وہ اُس کے متاثرین میں سے تھا اور ابھی تک اُسی مقالے کے سامع کے بطور اپنا تعارف کراتا ہے۔ سادہ آدمی! اپنی بلند قامتی کسی کے سیمینار کے پیچھے کب تک چھپا سکو گے؟۔ مجھے اپنا ہر سامع دانش میں بلند قامت بنتا اچھا لگتا ہے۔

عمران ثاقب اپنی بھرپور جواں شاعری کے ساتھ وہیں تھا۔ یہ نوجوان تو کافر قسم کی گلوکاری بھی کرتا ہے، اُس دن معلوم ہوا۔
یہاں بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی ڈیپارٹمنٹ کا اُستاد سنگت رفیق موجود ہے۔ چھلا وہ روح کا آدمی۔ ابھی تک جدیدیت میں جگہ پانے کی تگ و دو میں ہے۔ فارم اور کانٹینٹ میں سے کسی ایک کے انتخاب کی روح سوز جدوجہد میں غلطاں ہے۔ اُسے ہم سب کی طرح ”بلوچیت“ اپنی رو میں بہا کر سیدھی راہ دکھا ہی دے گی کہ وہ ادبی طور پر بے برگ و بے طرف و بے راہ خطے میں نہیں رہتا۔ اُسے اس کی دھرتی کے فن و ادب کے ”گام گیژ“ مہر گڑھ تک لے جائیں گے۔ ذرا اُس کے شعور کے سر کے دو بال سفید تو ہولینے دو!!۔

مگر اس کی موجودہ متجسس ذہنی کیفیت مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ خواہش ہے کہ وہ دوبارہ ”سنگت اکیڈمی“ راہبروں کی صف میں آن موجود ہو۔ بے شک وہ ٹائم لے لے، پہلے ستاروں کو معبود بنائے، پھر چاند کو، پھر سورج کو ………… اور بالآخر حقیقت تک آن پہنچے۔ راستے میں پیر چھالے تو ہو ہی جاتے ہیں۔

شُکر ہے کہ اُس نے لفظ ”ڈیپارٹمنٹ“ کا بلوچی ترجمہ کرنے نہ دیا ۔کچھ لوگوں نے ”تخلیقیت“ کی ٹانگیں توڑ ڈالیں جب انہوں نے لفظ ”ناول“ کا بلوچی میں ترجمہ کرڈالا۔ نہیں نہیں ”رومان“ نہیں، ”گدار“۔ انہوں نے نیٹ کو بلوچی میں ”دام“ بنایا، نیٹ ورک کو کار دام، انٹرنیٹ کو دامگ، ویب کو تَند، ویب سائٹ کو تَنجاہ، ویب پیج کو تَندیم، ہوم پیج کو لوتاک، لِنک کو کرس، لوڈ کو گیج، اپ لوڈ کو سرگیج، ڈاؤن لوڈ کو ایرگیج………… سب بلند آواز میں بولو ”لا حول و لا قوۃ اللہ باللہ العلی العظیم!!“

مُراد اسماعیل بھی اِدھر تھا۔ وہی ڈیلٹا والا جس کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی شان دار پیداواریت نے تشویش کی لہریں دارالحکومت تک پہنچادیں۔ اور اباسین کے اُس پار سے خرد کے ویریوں کو جمع کرکر کے علم کے ”بلوچستان چیپٹر“ پر حملے کرنے پر اکسائے رکھا۔ بھئی یہاں فرد کی طرح اداروں کی گردنیں بھی بلند نہیں چاہئیں۔

محفل میں ظہیر ظرف بھی تھا، حب کے چیکو کی طرح خوش ذائقہ گفتگو کرنے والا اچھا شاعر، اُس کی جونیئری، مؤدبی دو منٹ میں تحلیل ہوچکی تھی ………… ہم سے جو ملا تھا!

سعدیہ بلوچ اور رژنا کی ماں نوشین تو ہمارے ساتھ ہی آئی تھیں۔………… رژنا کا باپ بھی تھا بھئی۔ میرے یار کا بیٹا، سیف۔ڈاکٹر عثمان با دینی کا بیٹا سیف واپڈا میں انجینئر ہے۔ ڈاکٹر عثمان میڈیکل کالج میں مجھ سے ایک دو سال جونیئر تھا۔ شام کے وقت وہ ریڈیو پاکستان میں بلوچی کا ایک دیہی پروگرام کرتا تھا۔ ہم جب چھٹیوں پر گاؤں جاتے تھے تو ہر شام اس کا پروگرام سنتے۔ اس لیے کہ وہ اشاروں کنایوں میں کالج کی خبریں سناتا۔ ہم لیٹ ہوجاتے اور کالج میں باز پرس کا خطرہ ہوتا تو وہ اپنے پروگرام کے مخصوص انداز میں کہتا۔: ”نا کو شاہ محمد! بختاور، تو کجائے من پرتہ زہیر کرتہ، بیا…………“ اور بس ہم گاؤں سے واپس کالج لوٹتے۔ امتحان ملتوی ہوتا تو وہ ریڈیو پہ کہتا: ”نا کو قرار بہ کن، سردیں۔ ماہے آ پد شہرا بیا“۔

ڈاکٹر عثمان کا دوسرا بھائی بھی میڈیکل کالج میں تھا، ڈاکٹر عنایت۔ اب سب بڈھے کھوسٹ ہوچکے ہیں۔ عمر بھی عجیب مظہر ہوتی ہے۔ شروع ہوتی ہے ”فریش، اور ری فریش“ سے، اور انجام پاتی ہے ”ٹائرڈ، اور ری ٹائرڈ“ میں۔

گوادر کی اس محفل میں ٹی وی پروڈیوسر حفیظ بلوچ موجود تھا۔ جوان، متحرک اور سنگین و متین۔ پروفیسر اعجاز بھی موجود تھا۔ بھئی میں نے ”ماس کمیونی کیشن“ کے کسی ٹیچر کو اس قدر خاموش کبھی نہیں دیکھا۔

نوجوان دلوں میں موجود دھڑکنوں کے سیاق و سباق کا مجھے کچھ پتہ نہیں کہ انہیں ڈی کوڈ کرنا ایک الگ اسپیشلٹی ہے۔ مگر انہوں نے شاید اپنی کوششوں کو بارآور نہ پاکہ مجھے موبائل ملاکر دیا۔ درخواست کی کہ مناظر کی سیم و سرحد، رسترانیؔ کی خاتون کو یہاں آنے کا حکم دوں۔ میں نے اپنے سے بہت بڑے انسان کا واسطہ دیا: ”پروین ناز، تمہیں عبداللہ شاہ غازی کا واسطہ چلی آؤ“۔ ایک چھت پہاڑ قہقہہ حاضرین کی طرف سے گونجا، اور ایک بے ساختہ بلبل فون کے ذریعے کان میں چہکی، ”پیدا کوں“۔

………… اور پھر میرا پرانا یار، بجار آگیا، اس اعلان کے ساتھ کہ وہ میرا سُن کر آگیا۔ مجھے اُس کے خلوص پر شک ہو توشالا محبوبہ کی خود پہ کی گئی شاعری سے محروم ہوجاؤں۔ مگر یہ بھی تو معلوم تھا اُسے کہ جب ہم ہوں گے تو رانجھے کی ونجلی تو بجے گی۔ اور موسیقی تو بجار کے نبض کی ہارمنی کی چغلی ہے، اُس کے ذائقے کی چیز ۔وہ دور رہ ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ فضا میں موسیقی کی بُو سونگھتا سونگھتا پہنچ گیا۔ بہانہ ”مندر جانے کا“ …………اور میں تو عمر بھرا جڑی روحو ں کا مندر ہی بنا رہا۔ شکتی، اور شکتی شالی کی تمنا کے بغیر۔

بجار ایک بے لوث، selfless، chrismaticشخص ہے۔ یہ شخص مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس لیے بھی کہ وہ مجھ سے مشرقی بلوچی بول لیتا ہے۔ اُس سے بھی بڑھ کر اس لیے کہ اس سے میری پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب میرا مورچے کا ساتھی امیر الدین ابھی زندگی سے، زندگی کو حسین بنانے کی جدوجہد سے، اور مجھ سے، دور نہ ہوا تھا۔ جب میں اور امیر الدین ہیومن رائٹس کمیشن کے وفد کے بطور تربت گئے تھے۔ وہیں ہم بجار سے پہلی بار واقف ہوئے تھے۔ اب جب بھی ملتا ہے تو مجھے زندگی یاد آجاتی ہے، زندگی کو حسین بنانے کی جدوجہد کا اپنا رفیق یاد آتا ہے۔ بجار مجھے سب سے بڑھ کر اس لیے بھی اچھا لگتا ہے کہ ُاسے اچھا لگنے ہی کے لیے خلق کیا گیا تھا۔

وہ اکیلا نہ تھا، ہمارے ایک اور ممدوح گلزار بلوچ کو بھی ساتھ لایا تھا۔ گلزار ایک بسیار نویس شخص ہے۔ اُس کے مضامین ”سنگت“ میں چھپتے رہتے ہیں۔ تحریریں تازگی جوانی کا پتہ دیتی ہیں۔ مگر ہم پہلے ملے نہ تھے۔ آج جب وہ گلے ملا تو خاموشی سے مؤدب و مہذب بن کر کان میں اپنا نام بتایا: گلزار گچکی۔ میں نے اُسے خود سے دور کیا، غور سے اُسے دیکھا، اور دوبارہ گلے لگاتے ہوئے بے ساختگی میں کہہ بیٹھا: ارے میں تو تمہیں جوان سمجھتا تھا!!۔ بس پھر یہ ہم دونوں کا سمجھو تکیہ ِ کلام بنا۔ ایک اچھا دوست پاکر بھلا کون خود پہ فخر نہیں کرے گا۔!!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔