وہ کوئی ایسی بات ضرور لایا ہے – محمد خان داؤد

159

وہ کوئی ایسی بات ضرور لایا ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ابراہیم علیہ سلام رات میں آکاش پر چمکتے چاند کو تکتے اور پھر تاروں کو دیکھتے رہتے
دن کی روشنی میں سورج سے آنکھیں ملانے کی کوشش کرتے اور سورج ابراہیم کی آنکھوں کو خیراکر جاتا آنکھیں ماتھے پہ رہ جاتیں اور سورج وہیں آکاش پر چمکتا رہتا۔
پھر ابراہیم اپنے چچا آذر سے کہتے
،،ان میں وہ نہیں جو میرے من میں ہے!،،

وہ اپنے آباؤ اجداد کے طورطریقوں پر چلنے سے انکار کر بیٹھتا ہے، وہ بابل کے سارے بت توڑ دیتا ہے اس کی ایسی ہمت اور ذہانت اپنے وقت کی ایک نئے روشن سچ، سچ کی طرف ایک قدم اور ایک چھلانگ تھی۔

ایتھینز کی گلیوں میں سانس لیتا بت تراش کا بیٹا سقراط اپنی بے نیازی، بے پرواہ اور دانائی، فقیرانی عمر میں دیو تاؤں کے وجود سے مکمل انکار کر بیٹھتا ہے اور ایتھینز کے نوجوانوں میں ایک نئی سوچ ایک نئے سچ کے دروازے کھولتا ہے۔ یونان کے در و دیوار میں ایک لزرہ طاری کر دیتا ہے۔ وہ اپنے آبا و اجداد کے طریقوں کو یکسر مسترد کر دیتا ہے اور زہر کا پیالا پی جاتا ہے اس کا زہر کا پیالا پینا ایک نئے روشن سچ، سچ کی طرف ایک قدم اور ایک چھلانگ تھی۔

وہ سر زمینِ اٹلی کے ایک راہب کا چرہا بیٹا تھا۔ جب اس نے اپنے باپ راہب کے طریقے کو سائینس کی بنیاد پر جانچا جو اسے خدا کے بارے میں بتا تا تھا، تو اس نے راہبوں کے خدا کو ماننے سے انکار کر دیا جس سے کلیسا جل اُٹھی اور پادریوں اور راہبوں نے اسے جلانے کا فیصلہ سنایا، کلیسا نے اس انقلابی انکاری گیور دانو برونو کو جلا ڈلا اس کے جسم سے اُٹھتا دھواں اور شعلے ہزار سال گزر جانے کے باجود اب بھی اس کے جسم کی بولیے موجود ہیں۔
گیودانو برونو کا جلنا ایک نئے روشن سچ، سچ کی طرف ایک قدم اور ایک چھلانگ تھی۔

وہ بار بار کہتا رہا کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت نہیں یہ ملک سب کے لیے ہے، اس ملک میں جیسے حقوق گوروں کے ہیں ویسے ہی کالوں کے ہیں پھر ایک دن اسے گولی ماردی جاتی ہے، جسم زمیں پر اوندھے منہ گر پڑتا ہے اور روح ایک اور جدو جہد کا راستہ سجا دیتی ہے۔

وہ بیج کی مانند دفن ہوا اور پھر بیج کی مانند ہی اس میں نئی کونپلیں اُگ آئیں وہ نئی کونپلیں اس پیغام کو لائیں تھیں کہ ایک نئے روشن سچ، سچ کی طرف ایک قدم اور ایک چھلانگ تھی۔

گورے کالوں کے دیس میں آئے اور قبضہ گیر بن گئے، وہ گو رے بہت کم تعداد میں تھے پر وہ اپنی ذہینی طاقت سے لاکھوں کالوں کو غلام بنائے بیٹھے تھے۔ وہ سچ کو جانتا تھا۔ اسے اپنی دھرتی سے پیار تھا وہ یہی چاہتا تھا کہ کالے اپنی دھرتی پہ غلام نہیں مالک بن کر جئیں یہی سوچ اس کے لیے عذاب لایا، تہمتیں لائیں اور وہ قید لائے، جس قید کا کوئی انسان سوچ بھی نہیں سکتا نیلسن منڈیلا۔
جی ہاں نیلسن مینڈیلا نے اپنی زندگی کے ستائس سال قید تنہائی میں گذار دیے
اس کے یہ ستائیس سال یہ پیغام لائے کہ ایک نئے روشن سچ، سچ کی طرف ایک قدم اور ایک چھلانگ تھی۔

وہ ایک تھا، تنہا تھا بلکہ اپنے گھر میں بچ جانے والا آخری مر دتھا، وہ چاہتا تو اپنی زندگی آسائیشوں میں گزارتا، بہت سی شادیاں کرتا، بہت سے بچے پیدا کرتا، اسے کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہ تھی۔ وہ سردار بھی تھا۔ سید بھی تھا۔ وڈیرہ بھی تھا پر شاید اس نے وہ آواز سن لی تھی، جو انسان کو بے چین کر دیتی ہے اور سکون لینے نہیں دیتی، جی ہاں جی ایم سید زندگی بھر عتاب میں رہے مصیبتوں اور تکالیف میں رہے، اس کا مصیبتوں اور تکلیفوں میں رہنا اس بات کا امین تھا کہ ایک نیا سورج طلوع ہوگا۔
ایک نیا دن ابھرے گا جس میں بس روشنی ہو گی۔ نئی امید اور نئی سحر ہوگی۔

وہ چاہتا تو آرام سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد کسی سرکاری نوکری میں کھپ کر یا تو اپنے پروفیشن میں آگے بڑھتا اور پڑھائی کرتا وگرنہ اسی نوکری میں بہت سے پیسے بنا کر اپنے بچوں کے ساتھ خوش رہتا۔ نوٹ بناتا اور آسائیشوں میں رہتا۔ اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھاتا۔ انہیں کسی باہر ملک کی فل برائویٹ اسکالر شپ دلا کر ان کا مستقبل اچھا کرتا اور جب وہ پڑھ لکھ کر واپس لوٹتے تو انہیں اچھی سی ملازمت دلا کر خود تسبیح پڑھتا رہتا۔

پر اس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ آج بھی انٹرنیٹ پر کئی ایسی تصایر موجود ہیں جن تصویروں میں وہ جب سے ہی عتاب میں ہے زیر تسلط ہے۔ مصیبت میں ہے۔عذاب میں ہے، جب وہ ابھی بولان میڈیکل کالج میں شاگرد ہے۔ وہ جب سے اپنے نازک وجود پر ریاست کے جوتے اور ڈنڈے برداشت کر رہا ہے۔
اس نے وہ آواز نہیں سنی جس آواز سے مستقبل سنورتا ہے
اس نے وہ صدا سنی جس صدا سے نسلیں سنورتی ہیں
وہ اپنا مستقبل بہت پیچھے چھوڑ کر نسل سدھارنے نکلا ہے
اس نے یہ نہیں کیا کہ اپنے بچے فل برائیٹ اسکالر شپ پر باہر جائیں
اس نے یہ کیا کہ جب یہ دھرتی آزاد ہو گی تو اسی دھرتی کو جنت بنائیں گے
وہ ایسا آدم نہیں ہے کہ جسے فردوس بدر کیا جائے
وہ ایسا فرشتہ ہے جو آگے آگے چل کر جنت میں گل فروشی کرتا ہے

وہ نیا فرشتہ ہے۔ اسے خدا نے ابھی تخلیق کیا ہے اور وہ بس یہ چاہتا ہے کہ دھرتی آزاد ہوگی تو اس پر نئے نئے گل پیدا ہونگے اور وہ گل کسی کی قبر کے لیے نہیں ہونگے، وہ گل بس سہروں کے لیے ہونگے جو سہرے بہنیں اپنے ہاتھوں سے بوئیں گی اور مائیں ان سہروں کو اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے سروں پر سجائیں گی۔
وہ پرانی باتوں کو پسِ پشت چھوڑ آیا ہے۔ اب اس کے پاس سب نئی باتیں ہیں.
نیا کلام ہے!
نئے گیت ہیں!
نئی موسیقی ہے
نئی آواز ہے
نئی شام
اور نئی صبح ہیں
اسی لیے ریاست اس سے خائف ہے
اس کے پاس ایسی باتیں ضرور ہیں
جس سے میں بھی خائف ہوں
جس سے تم بھی خائف ہو!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔