بلوچ نوجوان دشمن کا غرور توڑنے کے لئے فدائی بنتے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

1131

بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کراچی میں شہید ہونے والے سرمچاروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ پاکستان اور چین کو وارننگ ہے کہ وہ بلوچستان سے نکل جائیں۔ انہیں بلوچستان سے نکالنے کیلئے بلوچ قوم نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے فدائین شہید سلمان حمل، شہید تسلیم بلوچ، شہید شہزاد بلوچ اور شہید سراج کنگر کی عظیم قربانی کو نہ صرف بلوچ قوم، بلوچ قومی تاریخ ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد رکھے گی بلکہ دنیا میں آزادی کی جنگ لڑنے والے تمام محکوم انہیں نہیں بھول پائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چین جدید دور کا سامراج اور جارح قوت ہے۔ وہ دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے بلوچستان کو غیر اعلانیہ کالونی بنا کر گوادر کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی کرچکا ہے۔ قابض پاکستان نے اونے پونے داموں بلوچ سرزمین کو چین کے پاس گروی کر رکھا ہے۔ چین کی یہاں موجودگی صرف بلوچ قومی بقاء کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے خطرہ بن چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا ابھی تک چین کے عزائم کی ادراک سے قاصر ہے اور بلوچ تن تنہا جدید سامراجی عفریت کا مقابلہ کر رہا ہے۔ گوادر میں چینیوں کے مرکز کو نشانہ بنانے کے بعد کراچی میں چینی ساہوکاروں کے اڈے پر حملہ اسٹریٹجک اثاثوں پر حملوں کا تسلسل ہے۔ بلوچ اسے جاری رکھیں گے، خواہ اس کے لئے ہمیں کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا بلوچستان کسی کیلئے پاکستان کا ایک حصہ ہوسکتا ہے لیکن ہماری یہ سرزمین ہماری ماں ہے۔ اس کی تقدس، قومی تشخص اور آزادی کے لئے ہم سروں کی قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے۔ پاکستان نہ صرف ہماری سرزمین پر قابض ہے بلکہ ہماری سرزمین کو سی پیک جیسے منصوبوں کی آڑ میں چین کو غیر اعلانیہ لیز پر دے چکا ہے۔ چین کے ساتھ معاہدے اتنے خطرناک ہیں کہ بلوچ قوم کے سامنے اپنی جگہ بلکہ انہیں پاکستان خود اپنی پارلیمنٹ او رسینیٹ کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے۔ بلوچستان کے مقدر کا سودا چینی سامراج کے ساتھ فوجی جرنیلوں کے ہاں جی ایچ کیو میں طے ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی انہیں بلوچستان کی ترقی اور معاشی منصوبے قرار دینے پر بضد ہے تو ہم اسے دشمن کے ساتھ شریک جرم سمجھتے ہیں۔

اللہ نذر بلوچ نے کہا تشدد کی بنیاد قبضہ ہے اور تشدد کی تمام جڑیں قبضہ گیریت میں مضمر ہیں۔ پاکستان جیسی ریاست کے مقابلے میں انقلابی جنگ کا سبق ہمیں چی گویرا اور ہوچی منہ جیسی ہستیوں کے افکار اور بلوچ قومی روایات میں ملتا ہے۔ آج ہماری انقلابی جنگ پر نام نہاد دانشور نکتہ چین ہیں کہ اس سے پاکستانی تشدد کو جواز ملتا ہے۔ انہیں حسیبہ اور سیما کی آنسو نظر نہیں آتے ہیں کہ جن کے پیاروں کو ریاستی فوج نے کس حملے پر رنگے ہاتھوں پکڑ کر زندان میں پھینک دیئے ہیں؟ انہیں یہ حقیقت کیوں نظر نہیں آتا ہے پاکستان اور چین تزویراتی لحاظ سے دنیا کے موت و زیست کے حامل بلوچ سرزمین پر بلوچ قوم کو مٹانے کا عملی فیصلہ کرچکے ہیں۔ پاکستان کی بربریت اور تشدد آج سے ستر سالوں سے جاری ہے اور پاکستان کی مظالم اور بربریت، سڑکوں پر بلوچ بیٹیوں کی آنسو ہماری جنگ کے شدت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان آنسوؤں کا پاکستان اور اس کے ہمنوا آلہ کاروں سے بدلہ لینا ہے۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ ایسے حملوں کو جواز بناکر پاکستان بلوچ نسل کشی میں اضافہ ہی کرے گا لیکن اس سے ہمیں نہیں مٹاپائے گا۔

انہوں نے کہا بلوچ انقلابی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بلوچ گھبرو جوان، ماؤں کے دلارے شہرت اور جنون کے لئے نہیں بلکہ اپنی مظلومی کا پیغام دنیا تک پہنچانے اور دشمن کا غرور توڑنے کے لئے فدائی بن جاتے ہیں۔ وہ یہ امید ضرور رکھتے ہیں کہ بلوچ قوم ان کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔ کراچی میں ساہوکاروں کے اڈے پر حملہ اسی کی ایک کڑی ہے۔ تسلسل جاری رہنی چاہئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم عددی، عسکری اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دشمن کے سامنے کمزور ہیں۔ کمزوروں کے لئے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ایک اہم ہتھیار گوریلا جنگ ہے۔ یہ دنیا بھر کے انقلابیوں کا میراث ہے اور بلوچ نوجوان اس میراث میں تاریخ ساز اضافہ کریں گے۔