جانوروں کو درندوں کا سامنا۔ تحریر: میرین بلوچ

265

جانوروں کو درندوں کا سامنا
میرین بلوچ

درندہ اس جاندار کو کہا جاتا ہے جوکہ دوسرے جانداروں کو چیر پھاڑ دیتا ہے۔ شاید عام لوگوں کے خیال میں یہ کام صرف جانوروں کے حصے میں آیا ہے۔ صرف بے زبان جانور ہی چیر پھاڑ کےعمل کا مرتکب ہوتے ہیں، لیکن آج میں زمین کے جس ٹکڑے میں زندگی بسر کررہا ہوں، وہاں جانوروں کے اس عمل کو کئی گنا زیادہ بدترین شکل میں، انسان نما درندے دہراتے ہیں۔ یہاں انسان جیسی ایک قبضہ گیر ریاست کے درندے نما جاندار فوجی بڑی فخریہ انداز سے یہ درندگی روز سرانجام دے رہے ہیں۔

آج سوشل میڈیا پہ پاکستانی جبر کی ایک تصویر میرے نظروں سے گذری، جس میں پاکستانی فوج کی شیلنگ سے چند بکریاں ہلاک اور کئی زخمی ہوئیں تھیں۔ ان بے زبان جانوروں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ بلوچ سے منصوب تھے یعنی بلوچ کے جائیداد میں آنے کی پاداش میں مارے گئے۔

اسی طرح کے سفاک دشمن نے بلوچ کو غلام اور خود کو آقا پیش کرتے ہوئے، یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ میری غلامی قبول کرو ورنہ تم تو کیا، تمہارے نام سے منصوب جانور تک نہیں بخشے جائینگے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا یہ تب سے جاری ہے جب سے پاکستان نے بلوچستان پہ قبضہ کیا ہے۔

ڈیرہ بگٹی کا ایک دوست کہتے ہیں کہ نا ہم اپنے علاقے میں محفوظ ہیں نا ہمارے جائیداد اور تو اور ہمارے پالتو جانور تک مارے جاتے ہیں۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ بھلا کوئی کیوں جانوروں کو بھی مارتا ہو گا؟ تو اس نے کہا کہ ہمارے علاقے میں ایک داڑھی والا کمانڈنٹ تعینات ہوا تھا۔ جب وہ نکلتا تو ایک قافلے کی شکل میں نکلتا تھا اور جس گاؤں پر حملہ کرتا وہاں گھروں سے کھانے کی اشیاء تک اپنے ساتھ مال غنیمت سمجھ کر لیجاتا اور اس نے حکم صادر کیا ہوا تھا کہ بلوچوں کے جانوروں کو بھی گولی ماردو اسطرح ہمارے کئی بھیڑ، بکریاں اور اونٹ مارے گئے۔

ڈیرہ بگٹی کا ایک اور واقعہ وہ دوست سناتے ہوئے بولا کہ ایک گھر پہ اچانک فوج کا حملہ ہوا، اس میں اس گھر کے تمام افراد شہید ہوئے اور ایک بچہ زخمی ہوا تو گھر کی ایک عورت نے اس بچے کو فوجیوں کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اب کچھ نہیں بچا، اسے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ کم سے کم علاج تو کروگے۔ کہتے ہیں کہ سپاہی نے اپنے افسر کے حکم پر بچے کو گولی مار دیا اور لاشوں کے اوپر سے گاڑیاں چلتے بنے۔

اس سفاک دشمن سے اور کیا امید کی جا سکتی ہے، ہاں! مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور مقابلہ ہی بلوچ مسئلے کا حل ہے. چاہیے وہ مقابلہ سیاسی ہو یا محاذ جنگ کا ہو دونوں صورتوں میں۔