یار، یہ بے حسی ہمیں مار ڈالے گی – ظریف رند

693

یار، یہ بے حسی ہمیں مار ڈالے گی 

تحریر: ظریف رند

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

یوں تو بلوچ دھرتی روزانہ کے معمول پر موت اور آہ و فریاد کی سرخیوں کا مرکز ہے، جن میں اکثر گولیوں سے چھلنی لاشوں اور کسی فرد یا جھتے کے ہاتھوں درندگی کے شکار ہوئے لوگوں کے تذکرے ہوتے رہتے ہیں، مگر کچھ ایسے اموات بھی اسی معمول کا حصہ ہیں، جنہیں عام طور پر گمنام، ناگہانی یا پھر قسمت و قدرت کے کھاتے میں ڈال کر دل کو تسلی دی جاتی ہے لیکن اگر ہم ان اموات کو اعتقادی نظریہ سے ہٹ کر دیکھیں تو ان جوان اموات کی بنیادیں ہمیں سماج کی بے پناہ پریشر، بیگانگی اور بنیادی انسانی ضروریات زندگی کی عدم دستیابی سمیت ایسے اہم وجوہات میں پنہاں نظر آتی ہیں، جن پر کوئی چرچہ نہیں ہوتا، کسی کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جاتا۔ بس نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ متاثرہ گھر ماتم کرتا ہے، ہمسائے فاتحہ پڑھتے ہیں، لوگ چار گپے لگا کر پھر اسی سماجی معمول کی طرف لگ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہی سماجی دباو آج ہم سے بے انتہا قابل اور حساس ساتھی جاسم بلوچ کو بھی جدا کرکہ لے گیا۔ ان کا گھر اور احباب ماتم کر رہے ہیں۔ جو انکو جانتے تھے، سوشل میڈیا پر اسٹیٹس دے رہے ہیں، میں یاداشتیں لکھ رہا ہوں۔۔۔ اسی سے ہم سب خود کو مطمئن کرینگے اور وہی پرانا معمول ہوگا، وہی ریت قائم رہیگی!

جاسم برکت بلوچستان کے علاقے کیچ کے ایک پسماندہ گاوں نودز سے تعلق رکھتے تھے۔ بنیادی تعلیم تربت سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے پنجاب کے شہر لاہور کا رخ کیا اور باقی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک وہیں بسیرا کیا۔

جاسم بلوچ سے میری ملاقات 2010 میں لاہور میں ہوئی جب میں اور وہ لاہور بیچلرز کے داخلہ کیلئے گئے تھے۔ ہم ایک ساتھ ایک ہی کمرے میں رہے اور داخلے کیلئے اپنے اپنے چنے گئے یونیورسٹی میں اپلائی کیا۔ میرا یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں داخلہ ہوا اور انکا گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے شعبے میں داخلہ کنفرم ہوگیا اور پھر ہم اپنے اپنے اداروں میں مصروف رہے۔ غالباً ایک مہینے کے داخلہ پراسس کے بعد ہم نے اپنے اپنے رہائش اپنے تعلیمی اداروں کے قریب رکھا، مگر ہمارا تعلق ایسے قائم ہوا کہ وہ صدا کیلئے اٹوٹ رہا۔ جاسم بلوچ انتہائی حساس مزاج اور درد دل رکھنے والے نوجوان تھے، جو ہمیشہ اپنے سماج کے پر پیچ مسائل پر غور و فکر کرتے رہتے اور بلوچ قوم پر سرزد حالات پر ہمہ وقت جہد کرنے کو تیار تھے۔ ابتدائی دنوں میں کسی بھی طالب علم کی طرح ہم دونوں بہت پرجوش تھے کہ ہم انتہائی پسماندہ حلقوں سے نکل کر پاکستان کے دل، تخت لاہور میں (آقاوں کی نگری میں) ان کے معیار کی تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں اور یقیناً جن بڑے پوسٹوں پر یہ محترم یہاں سے آکر ہماری نوکریاں لے جاتے ہیں، وہ اب ہم خود لیں گے اور مزے کی زندگی گذاریں گے، لیکن دوسری طرف ہم دیکھ رہے تھے کہ ہم اپنے پیچھے چھوڑے گئے سماج کی پسماندگی اور ان کو درپیش بیش بہا مسائل کی فکر سے کسی طور بھی باہر نہیں نکل پا رہے اور یہ فکر ہمیں وہاں بھی جدوجہد کرنے اور نوجوانوں کا شعور اجاگر کرنے میں اکساتی رہی۔

یوں تو اکثر ہماری ملاقاتیں رہتی تھی لیکن میں نے ان کے اندر یہ مسلسل بدلاو محسوس کیا جو انکی حساسیت میں اضافہ کرتی رہی۔ ہم نے جب بی ایس او کے لاہور زون کی بنیاد رکھی تو جاسم سب سے زیادہ سرگرم ساتھیوں میں شامل تھے اور بے تحاشا اصلاحی تنقید کے ساتھ ہمارے ساتھ جڑے رہے اور نوجوانوں کو قومی استحصال کے خلاف جہد اور طبقاتی جڑت کی تبلیغ کرتے رہے۔ معروضی حالات پر ان کا بڑا گہرا نظر تھا اور اسی معروض کے پیش نظر موضوعی عنصر یعنی تنظیم و اتحاد کی ضرورت پر وہ ہمیشہ زور دیتے رہتے تھے مگر اکثر انہیں لاہور میں مقیم بلوچ نوجوانوں کے اکثریت سے یہی شکایت تھی کہ یہ نوجوان لاہور کی پر رونق زندگی میں مگن ہو رہے ہیں اور یہ اپنی پسماندگی کو یکسر فراموش کرتے جا رہے ہیں۔

اکثر بحثوں میں کہتے تھے “کامریڈ، یہ جوان لاہور کو آکسفورڈ اور ہارورڈ سمجھ رہے ہیں اور ان استادوں کو نام چومسکی سمجھتے ہیں، اس لئے اپنے کورس کیریکیولم اور کمروں تک محدود ہیں۔” اور یوں ان کی بے حسی پر طنز کرتا تھا۔ اس اعلیٰ سیاسی شعور کے ساتھ وہ اپنی اکیڈمک ایجوکیشن میں بھی انتہائی قابلیت اور محنت سے آگے بڑھتے رہے اور گولڈ میڈل لیکر فلسفہ میں جی سی یو کالج سے فارغ ہو گئے، لیکن انہوں نے سیاسی شعور و آگہی کے کام سے کسی طور روگردانی اختیار نہیں کی بلکہ اس کام کو بھی ترجیحی بنیادوں پر قائم رکھا۔ ترقی پسند گروپس کی علمی و سیاسی سرکلز سے لیکر چھوٹی بڑی طلباء تحریکوں میں وہ ہمیشہ پہلے صفوں میں نظر آئے۔ ان کا اکثر کہنا تھا کہ “پنجاب سے حقیقی تعلیم ہمیں ان سرکلوں سے مل سکتی ہے باقی یونیورسٹی سے تو بس ڈگری خرید رہے ہیں۔”

چار سالہ بیچلرز کی ڈگری گولڈ مڈل کے ساتھ حاصل کرنے کے بعد انہوں نے گھریلو پریشر کو کنٹرول کرنے کیلئے مختلف جگہوں پر نوکری کیلئے اپلائی ضرور کیا مگر ہر جگہ سے مایوسی ہی ملی۔ ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت آنے اور تربت یونیورسٹی کے قیام پر وہ بہت خوش اور پر عظم تھے کہ انہیں موقع ہے کہ اس نئے ادارے میں انہیں لیکچرار کی پوسٹ مل جائیگی اور وہ اپنی علم و آگہی کے ہی سفر کو جاری رکھ پائینگے لیکن ہوا یہ کہ تمام سیٹیں اور تقرریاں سیاست کی نظر ہو گئیں اور اقربا پروری نے انکی ارمانوں کا پہلا قتل کر دیا۔ ایک دن چائے پر بیٹھے ہم گپ شپ کر رہے تھے تو بڑے جذباتی ہو کر کہنے لگے “ارے یار مجھے مفت میں تربت یونیورسٹی میں پڑھانے کا موقع دیا جائے۔۔ واللہ کے میں بہت لائق ہوں۔ میں بہت اچھے سے پڑھا سکتا ہوں ان بچوں کو۔۔ انہیں یوں بت نما استادوں کے ہتھے کیوں چھڑایا جا رہا ہے؟”۔ انہیں اپنی قابلیت پر پورا اعتماد تھا لیکن یہ ظالم نظام کہ اس میں کسی کی قابلیت کے بجائے حکمرانوں کی ذاتی مفادات ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے مایوسی کے بجائے دوبارہ تعلیم کے تسلسل کو جاری رکھا اور اس بار پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں ماسٹر میں داخلہ لیا اور پی یو ہاسٹل میں بس گئے۔

اب کی بار ان کی سیاسی وابستگی اور زیادہ بڑھ گئی اور اب نوجوانوں کو متحد کرنے کے عمل کو پہلی ترجیح پر رکھا۔ پنجاب یونیورسٹی کونسل کے مرکزی باڈی میں شامل ہو گئے اور اکثر و بیشتر وقت نئے طلباء کی سیاسی تعلیم و تربیت پر لگاتے رہے۔ پاکستان و کشمیر کی ترقی پسند طلباء تنظیموں کے ساتھ ہم نے جب طلباء کی اتحاد بنانے کی تگ و دو شروع کی تو اس میں لاہور کے اندر بلوچ طلباء کو جوڑنے میں جاسم نے سرتوڑ کوشش کی اور 2015 میں ہم نے اس اتحاد کا پہلا کنونشن لاہور میں منعقد کیا تو اس کی تیاری کے سلسلے میں میں ان کے ہی ہاسٹل روم میں کچھ دن رہا اور وہ میرا کونسل کے مختلف نوجوانوں کے ساتھ میٹنگ کرواتے رہے اور گورنمنٹ کالج سمیت فارمن کرسچن کالج میرے ساتھ وزٹ کرتے رہے اور اس اتحاد میں بی ایس او یا بلوچ نوجوانوں کے نمائندگان کی زیادہ سے زیادہ شرکت کروانے پر سرگرم رہے۔ پنجاب کے ان کونسلز میں ایک بات ہمیشہ زباں زد عام تھی کہ (جی ہم اے پولیٹیکل ہیں) یعنی ہم غیر سیاسی ہیں اور سیاسی ایکٹیوٹی میں شرکت نہیں کر سکتے، اس بات پر انکا بڑا غضب جواب تھا۔ “یار کامریڈ، ان کی بے حسی ہمیں مار ڈالے گی۔۔۔ سر پر سیاسی لاٹھی لٹکنے کے باوجود کیسے غیر سیاسی ہوا جا سکتا ہے؟ انہیں جو یہاں بلوچ مخلوق کی قربانیوں یا لاشوں کے نام پر سیٹ ملی ہے، یہ ان کی توہین کرتے ہیں۔۔ ان کے حق میں نہیں بولتے۔ بہت بے حس ہیں!”

اس پوزیشن پر اکثر ان کی اپنے کونسل کے ساتھیوں کے ساتھ ان بن ہوتی رہتی تھی لیکن وہ مایوس نہیں ہوتے تھے بلکہ خود ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ مجھے بہت اچھے سے یاد ہے جب لاہور کنونشن میں میں ڈائیس پر بلوچ طلباء کی نمائندگی کرتے ہوئے تقریر کرنے گیا تو جاسم اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ ملکر اچھل اچھل کر بی ایس او کے نعرے لگاتا رہا اور لگاتار دس منٹ سے زائد تک وہ چپ نہ ہوئے اور تقریر کے بیچ میں بھی بار بار پرزور نعرے لگاتا رہا۔ کیا کمال جنون تھا اس نوجوان میں!

پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلبہ کے ڈنڈا مار گروپ جب بھی بلوچ یا پشتون کونسل کے ساتھ تصادم میں جاتے تو پریس کلب کے احتجاجوں میں سب سے پہلا فرد جاسم ہی نظر آتا۔ مشعل خان کی بہیمانہ قتل کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں بھی مرکزی کردار ادا کرتے رہے۔ کسی بھی موڑ پر تھکن یا ان کے ماتھے پر شکن نظر نہیں آیا۔ ابھی حال ہی میں منظور پشتین نے جب لاہور جلسہ کا اعلان کیا تو اس جلسے کی کامیابی اور نوجوانوں کی پارٹیسیپیشن کو یقینی بنانے میں سرگرم عمل رہے۔ منظور پشتین کے نام بلوچی میں بینر تیار کیا جس پر لکھا تھا (وش آتکے منظور پشتین) یعنی خوش آمدید منظور پشتین۔ ان کی سیکیورٹی انتظامات میں پیش پیش رہے اور کامیاب جلسے کے بعد سب دوستوں کو مبارک باد کے میسیج بھیجتے رہے۔

جاسم بلوچ کی یاداشتوں میں کتنا کچھ بھی لکھا جائے کم ہوگا۔ ان کی پر خلوص جدوجہد بذات خود ایک کتاب ہے لیکن انہیں باقی کسی بھی نوجوان کی طرح سماجی پریشر کا بے تحاشا سامنا تھا۔ وہ ایم اے فلسفہ مکمل کرکے ایم فل میں داخلہ لے چکے تھے۔ انہوں نے شادی بھی کر لی تھی مگر اپنے آبائی گاوں بہت کم ہی جاتے تھے۔ وہ ایک بات پر اکثر مذاق کیا کرتے تھے کہ “میں جب بھی گاوں جاتا ہوں تو میرے گھر والے، اہل علاقہ اور دوست و معتبر مجھ سے ملتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ جاسم، تم اب کیا بننے والے ہو؟ تو میں جواب دیتا ہوں میں نے کتا اور لومڑی کا سائیز پار کرلیا ہے اب آگے شاید بھینس یا گدھا بن جاوں” اور اس بات پر وہ ہنس کر کہتے کہ گھر والوں کو میرا ایک باشعور انسان بننا قبول نہیں بلکہ وہ مجھے کچھ اور بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی پریشر کے پیش نظر انہوں کراچی میں ایک انتظامی پوسٹ پر ٹیسٹ دیا اور ایک خاص عہدے پر نشست حاصل بھی کر لی۔ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اس پوسٹ کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ “میں نے فلسفہ پڑھا ہے، انسانیت سے محبت سیکھا ہے، میں ڈنڈا ماری نہیں کر سکتا۔” اور دوبارہ لاہور چلے گئے ایم فل کی تھیسس پر کام شروع کیا۔ یہی اس کے آخری ایام رہے اور ہم تک ان کی آج کی یہ درد ناک خبر پہنچی کہ وہ تندرست تھے، کوئی جسمانی تکلیف و شکایت نہیں تھی لیکن اب ان کی سانسیں چلنا بند ہو چکی ہیں۔

وہ چست و چابک صحت مند نوجوان ہونے کے ساتھ ایک انتہائی قابل اور با علم قومی اثاثہ تھے لیکن ان کی قدر اس سماج نے بالکل بھی نہیں کی۔ انکو صرف نوکری پکڑنے اور اس بدبودار سماج میں ایڈجسٹ ہونے کا پریشر دیا جاتا رہا جبکہ وہ اس موجودہ سماجی ڈھانچوں کا ایک مخالف جہدکار تھا، جو اس بربریت بھرے سماج کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتا تھا، جس میں انسانی اقدار اور مہر و محبت کو دولت کی حوس نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ طبقاتی تفریق نے وسیع تر آبادی کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے اور فکر و فلسفے اور حق آزادی پر قدغن لگے ہیں۔ وہ ایک منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر قائم سماج کا تخلیق کار تھا جس میں علم دولت کی لونڈی نا ہو اور روٹی صرف چند ہاتھوں میں مقید نا ہو۔

کیا چل رہا ہوگا ان کے ذہن میں جب وہ زندگی و موت کی کشمکش میں ہونگے۔ کیا پیغام ہوگا ان کا ان بے حس نوجوانوں کو جن پر وہ طنز کرتا تھا ؟ کیا کہنا چاہتا ہوگا وہ اپنے پسماندگان سے جب آخری سانس لی ہوگی؟

یار جاسم! تیرا مجرم تو یہ سماج تھا تو نے بے وقت ہم سے بچھڑ کر ہمیں یوں کرب میں کیوں مبتلا کیا ؟ لیکن کامریڈ! ہم ایک وعدہ کرتے ہیں تیری قبر پر کہ جس درندہ صفت سماج نے تجھے اس طرح قتل کیا ہے، ہم تمہارے قاتل اس وحشی سماج کو ایک دن جڑ سے اکھاڑ دینگے اور پھر تو ایک بار ضرور لوٹ آنا اور زور سے وہی گانا گا لینا اور ناچنا جو تو نے ہاسٹل میں گایا تھا۔ “بیا او سرگوات منا زیر گوں زہیران برو۔۔۔”