بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے جاری ایک بیان میں کہا کہ پاکستانی فوج کے لیے کام کرنے والے پولیس اہلکار کی بلیک میلنگ سے تنگ آکر اسکول ٹیچر نجمہ بنت دلسرد نے خودکشی کرلی۔نجمہ ضلع آواران کے علاقے گیشکور کے گاؤں زیک کی رہائشی تھیں۔
ترجمان نے کہا کہ انھیں نوربخش نامی پولیس اہلکار مسلسل بلیک میل کرکے پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں کے لیے مخبری پر مجبور کر رہا تھا، جس سے تنگ آکر نجمہ نے خودکشی کرلی۔
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو آشکار کرتا ہے ۔
ترجمان نے کہاکہ بی این ایم اس واقعے کی شدید مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے اس کا فوری نوٹس لیں اور پاکستان کو جوابدہ ٹھہرائیں۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کے مسلسل ٹارچر ، جبری گمشدگی اور مسلسل تنگ کرنے کی وجہ سے یہ خودکشی کا پہلا واقعہ نہیں۔گذشتہ سال کم از کم چار افراد نے پاکستانی فوج کے جبر سے براہ راست متاثر ہونے کے بعد خودکشی کی تھی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2022 کو کلاس نہم کے طالب علم چاکر مجید کو پاکستانی فوج نے جبری لاپتہ کرنے کے بعد زور دیا کہ وہ پاکستانی فوج کے لیے مخبری کرے ، اس دباؤ کے نتیجے میں چاکر مجید نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔مہیم ولد آسمی نے 30 اگست 2022 کو خودکشی کی ، انھیں پاکستانی فوج نے جبری گمشدگی کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ رہائی کے بعد ان کو نفسیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے انھوں نے خودکشی کی۔
انہوں مزید کہا کہ نومبر 2022 کو خاران کی رہائشی امیرزادی نے اپنے گھر پر فوج کے مسلسل چھاپوں سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ ان کی خودکشی کے بعد ان کے شوہر لطف اللہ یلانزھی نے بھی خود کو گولی مار کر خود کشی کرلی۔
آخر میں انہوں کہا کہ پاکستانی فوج کے مظالم نے بلوچستان میں بڑی تعداد میں لوگوں کی ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے۔ ایف سی اور دیگر فورسز کی صورت میں پاکستانی فوج کے اہلکار بڑی تعداد میں موجود ہیں۔تعلیمی اداروں ، صحت کے مراکز اور لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں فوج براہ راست مداخلت کر رہی ہے جس سے معاشرے میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔گذشتہ دنوں پاکستانی حکومت کی کابینہ نے بلوچستان میں فوج کی تعیناتی کی منظوری دے کر بلوچستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کیا۔اس سے خدشہ ہے کہ پاکستانی فوج اپنے مظالم کو مزید وسعت دے گی اور انسانی حقوق کے لیے جگہ مزید تنگ کی جائے گی۔