پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحفظ اور سلامتی سے متعلق مشترکہ ورکنگ گروپ کا 9واں اجلاس اتوار کو چینی سفارتخانے میں ہوا۔ دونوں اطراف نے باہمی کوششوں کے ذریعے پاکستان میں چینی شہریوں اور منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے دشمن عناصر کے ایجنڈوں کا ملکر مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا۔
اجلاس کی مشترکہ صدارت اسپیشل سیکریٹری وزارت داخلہ سیف انجم اور دائریکٹر جنرل وزارت پبلک سکیورٹی چین نے کی۔
اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان میں سی پیک منصوبوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانا دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
فورم نے حکومتی اقدامات، پاکستان میں چینی منصوبوں اور عملے کے تحفظ کو یقینی بنانے اور چینی شہریوں کو نشانہ بنانے والوں کا پتہ لگانے کیلئے کیجانے والی کوششوں کو سراہا۔
دو طرفہ تعلقات کی کوششوں کو مزید فروغ دینے کیلئے مختلف مشترکہ اقدامات پر اصولی اتفاق کیا گیا جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تعاون کو مزید فروغ دینا اور انکی استعداد کار میں اضافہ شامل ہے۔
فورم نے نان کوریڈور منصوبوں کی سکیورٹی کے لیے علیحدہ جوائنٹ ورکنگ گروپ کے قیام کی تجویز پر بھی غور کیا۔
پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے بلوچ آزادی پسندوں کیجانب سے سی پیک و اس سے منسلک منصوبوں کو حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
جبکہ گذشتہ پانچ سال کے دوران سی پیک و دیگر پراجیکٹس پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور ورکروں کو شدید نوعیت کے پانچ فدائی حملوں میں نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ مذکورہ حملے بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کی جانب سے کی گئی۔
رواں سال اپریل کے مہینے میں کراچی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ارکان کو بھی ایک فدائی حملے میں نشانہ بنایا گیا جس میں تین چینی شہریوں سمیت 4 افراد ہلاک و فورسز اہلکاروں سمیت چار افراد زخمی ہوئے تھے۔
حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے کی مجید برگیڈ کی پہلی خاتون فدائی شاری بلوچ نے یہ حملہ کیا۔
نکی ایشیاء کے رپورٹ کے مطابق جون کے مہینے میں چینی وزارت خارجہ نے پاکستان سے کہا کہ وہ ایک چینی سیکیورٹی کمپنی کو پاکستان کے اندر کام کرنے کی اجازت دے۔ رپورٹ کے مطابق اس بات کا اعتراف اخبار کو موجودہ حکومت کے دو وزراء کی جانب سے کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ بیجنگ اس طرح کے انتظامات کے لئے پاکستان پر زور دیتا رہے گا۔