ڈیرہ جات کے بلوچ ۔ تھولغ بلوچ

782

ڈیرہ جات کے بلوچ

تحریر:تھولغ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کوہ سلیمان کے اکثر قبائل کے سردار جن میں قیصرانی ، لغاری ، گورچانی، لنڈ ، کھوسہ وغیرہ نے انگریز کی غلامی و چاپلوسی کر کے مراعات وصول کیۓ اور اپنے ہی بلوچ بھائیوں کا خون بہانے اور قتل غارت میں گوروں کا ساتھ دے کر نا صرف اپنوں کے ساتھ بے وفائی کی بلکہ اپنے دکھ سکھ سے بھی باقی بلوچ قبائل کو دور رکھا تھا ، یہ وہ دور تھا جب بلوچستان ایک آزاد اور خود مختار ملک تھا انگریز نے بلوچ قوم پہ براہ راست قبضہ کرنے کی جرات نہیں کی بلکہ بلوچ کو بلوچ کا مدمقابل کر کے اپنی مہم اور جنگ کو آسان بنا دیا۔

کوہ سلیمان کے کچھ قبائل جن میں مری ، بگٹی ،کھیتران قبائل شامل تھے جنہوں نے انگریزوں کو ناكو چنے چبوائے اور انہیں شدید نقصان پہنچایا۔

جس طرح کی مریوں نے مزاحمت کی آج تک انگریز نہیں بھولیں گے اور برطانیہ کو جنگ عظیم اول میں افرادی قوت نا دے کر ثابت کیا کہ زور زبردستی سے کوئی بھی طاقت بلوچ پہ قبضہ نہیں کر سکتا۔ اسی قومی جنگ میں باقی قبائل کی طرح کھیتران قبیلے نے بھی جنگ مزاحمت میں بھرپور کردار ادا کیا جس کے سر کردہ ركن میر مصری خان کھیتران تھے جس نے انگريزوں کو کوہ سلیمان کے درے سے داخل ہونے سے روکے رکھا اور فورٹ منرو کے مقام پر تھانے کو بھی قبضہ کر کے مکمل تباہ کر دیا تھا۔

اسی مصری خان کے باركھان میں بھی ریاست اور اس کے آله کار سرداروں نے اس طرح دبائے رکھا کہ کھیتران قبيله اتنا متاثر ہوا کہ اپنی شناخت تک بھول گیا کہ کھیتران بلوچ ہیں یا پٹھان ہیں۔

اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تونسه سے تعلق رکھنے والے ایک کالونیل مائنڈ سیٹ رکھنے والے کھیتران صاحب نے ایک کتاب لکھی جس میں کھیتران قبیله کو پٹھان لکھ دیا اور پٹھان ثابت کرنے میں لگ گیا۔

یہ بھی بلوچ قوم کی تعداد میں کمی کرنے والوں کی ایک سازش تھی
باركھان میں قومیت اور قوم پرستی کا نہ ہونا اس کی بڑی وجہ وہاں کے نوے کی دہائی کے نوجوانوں کی لالچ خود غرضی اور مفاد پرستی ہی ہے جس نے باركھان کو سیاسی طور پہ بہت پیچھے کر دیا ہے اور سیاسی خلاء پیدا کیا تھا۔

15 سے 20 سال تک باركھان کو اندھیرے میں رکھا اور بلوچ قوم سے دور رکھا گیا۔

خدا خدا کر کے یہ کفر ٹوٹا اب جا کے وہاں کے نوجوانوں نے قوم پرستی کو فروغ دینے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں اور بلوچ قوم پہ ہونے والے ظلم و ستم میں برابر کے دکھی ہیں چاہے ظلم بلوچستان کے کسی بھی کونے پہ ہو رہی ہو۔

جس طرح کی غلطی کوہ سلیمان کے ( لغاری ، مزاری ،گورچانی لنڈ ہوت ، قیصرانی ، کھوسہ ) قبائل نے کی تھی اور غیروں کے ساتھی بنے تھی اسی غلطی نے آج ان کو بلوچ قوم سے دور رکھا ہے۔

مگر آج کے نوجوانوں نے اس خلاء کو پر کرنے میں اپنا بہت بڑا کردار ادا کیا ہے اور ایک بار پھر اپنے بچھڑے ہوۓ بھائیوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں راجن پور تا ڈیرہ غازی خان بلوچستان بلوچستان۔

بلوچ وطن اور اس کے باسی جہاں اور جس جگہ ہیں ان کے دکھ درد غم خوشی میں شریک ہیں چاہے مکران کا بلوچ ہو یا سیستان کا
ہلمند سے ہو یا نمروز سے ایک ہیں اور ان کے غم اور خوشی بھی ایک ہیں۔

خدا کا شکر ہے کہ خدا نے بلوچ قوم کے اور بلوچ وطن کے برسوں بچھڑے بھائی ایک ساتھ ملا دیے ہیں دعا ہے رب سے کہ بلوچ قوم کے اس اتحاد و محبت کو شادمانی بخشے اور تا قیامت بلوچوں کو سلامت رکھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں