یہ بستی ہماری ماں ہے
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہم نے گوادر پر سہانے خواب دیکھے، بہت ہی خوب صورت خواب جن کی تعبیر سے پرتعیش زندگی اسیر ہوتی ہے۔ خواب ہم نے کیا دیکھے ہم تو ٹہرے مچھیرے بلکہ ہمیں پرتعیش مستقبل کے خواب دکھائے گئے۔ گوادر کو دبئی اور سنگاپور سے تشبیہ دے کر کہا گیا کہ گوادر ترقی کے زینوں پہ چڑھ رہی ہے جو خواب تم مچھیروں کی آنکھوں میں ڈالے گئے ہیں وہ تمہاری زندگیوں ہی میں تعبیر پائیں گے۔
اب جو گوادر کے گرد باڑلگایا جارہا ہے، پہلے ہی درجنوں چیک پوسٹ اور چوکیاں بنائی گئیں، جہاں ہماری عزت کے ساتھ روز کہلواڑ کرکے شناختی کارڈ دکھانے کے بہانے یہ تاثر دیا گیا کہ تمہارے دیکھے گئے خواب صرف تمہاری آنکھوں کی خوب صورتیاں رہ جائیں گی۔
گوادر کی سیکیورٹی کے نام پر گوادر باسیوں کو گھنٹوں کھڑے کرکے الٹے سیدھے سوالات کے بعد آنے جانے کی سہولت مل جاتی تھی یہ بھی غنیمت ہی تھا ورنہ مچھیروں کی کیا اوقات کہ ترقی کے زینوں پہ چڑھیں، مستقبل کے ایک شہر میں داخل ہوسکیں جو ان کے لیے ہر حوالے سے اجنبی بنتا جائے گا۔
کہا جارہا ہے کہ گوادر کے گرد باڑ بلکہ گوادر کو باڑ میں بند رکھنے کا سبب سیکورٹی ہے مگر پوچھا جاسکتا ہے کہ کس کی سیکیورٹی؟
گوادر باسی تو سالوں سے بغیر پوچھے اور شناخت گوادر میں داخل ہوتے رہے ہیں کہیں کسی نے کبھی ان سے اندر جانے اور باہر آنے کا سبب نہیں پوچھا نا کسی نے کبھی تلوار اٹھا کر راستہ روکا، بھلا اپنے گھر باسیوں کو گھر جانے میں سیکیورٹی کی آفت کیا آن پڑی ہے۔
وہ جو گوادر پر سہانے خواب تھے ان کی تعبیر ہی باڑ رہ گئی وہ باڑ جو اس شہر کے بدقسمت باسیوں کو اپنے گھر سے دور رکھنے کا سبب بنیں گے۔
گوادر کو ترقی کے نام پر ان کے باسیوں سے الگ رکھنے کا پلان دردناک ہے، ایسا دردناک کے سوچنا محال ہے۔ پرتگیزی لشکر سے جنگ لڑنے والے حمل اگر یہ سنے کہ ان کی بستی کے گرد لشکری آج باڑ لگا رہے ہیں تو ان کا کیا حال ہوگا۔
اس دلربا بستی کے سدا باسی مچھیروں کو ترقی نہیں چاہیے بس انہیں یہاں سے دور مت رکھیے۔ انہیں ان سے گوادر مت چھینے، انہیں باڑ میں بند رکھیے لیکن باڑ کی آن میں ان سے ان کا بستی مت چھینیں۔
آپ بھلے آقا اور ہم مچھیروں کو غلام کا درجہ دیجیے لیکن ہم سے ہماری بستی ترقی کے نام پر مت ہتھیا لیجے۔ یہ بستی ہماری زندگی ہے ہمارا جیون ہے ہمارے خواب اس سے جڑے ہیں یہ بستی ہماری سرزمین ہے بھلا کوئی کسی سے ان کا سرزمین بھی ترقی کے نام پر چھین سکتا ہے۔
حمل جیئند نے گوادر کے لیے جنگ لڑا تھا پرتگیزی لشکر کے خلاف جان دے کر گوادر کی حفاظت کرنے والے حمل کے اولاد پھر مجبور ہوں گے کہ لشکریوں کے سامنے اپنی سرزمین کی حفاظت پر جان نچھاور کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔